جمعرات، 19 اگست، 2021

دعائے عاشوراء کی شرعی حیثیت

سوال :

مفتی صاحب کیا درج ذیل دعائے عاشوراء صحیح ہے؟ میں نے دیکھا ہے لوگوں کو اس کا اہتمام کرتے ہوئے۔

حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جو شخص عاشورہ محرم کو طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک اس دعا کو پڑ ھ لے یا کسی سے پڑ ھوا کر سن لے تو ان شاء اللہ تعالیٰ سال بھر تک اس کی زندگی کا بیمہ ہوجائے گا، ہرگز موت نہ آئے گی اور اگر موت آنی ہی ہے تو عجیب اتفاق ہے کہ پڑ ھنے کی توفیق نہ ہو گی۔
یَا قَابِلَ تَوْبَۃِ اٰدَمَ یَوْمَ عَاشُوْرَآءَ یَا فَارِجَ کَرْبِ ذِی النُّوْنِ یَوْمَ عَاشُوْرَآءَ ا جَامِعَ شَمْلِ یَعْقُوْبَ یَوْمَ عَاشُوْرَآءَ یَا سَامِعَ دَعْوَۃِ مُوْسٰی وَ ھَارُوْنَ یَوْمَ عَاشُوْرَآءَ یَا مُغِیْثَ اِبْرَاھِیْمَ مِنَ النَّارِ یَوْمَ عَاشُوْرَآءَ یَا رَافِعَ اِدْرِیْسَ اِلَی السَّمَآءِ یَوْمَ عَاشُوْرَآءَ یَا مُجِیْبَ دَعْوَۃِ صَالِحٍ فِی النَّاقَۃِ یَوْمَ عَاشُوْرَآءَ یَا نَاصِرَ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ یَوْمَ عَاشُوْرَآءَ یَا رَحْمٰنَ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ رَحِیْمَھُمَا صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّ صَلِّ عَلٰی جَمِیْعِ الْاَ نْبِیَآءِ وَ الْمُرْسَلِیْنَ وَاقْضِ حَاجَاتِنَا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ اَطِلْ عُمْرَنَا فِیْ طَاعَتِکَ وَ مَحَبَّتِکَ وَ رِضَاکَ وَ اَحْیِنَا حَیٰوۃً طَیِّبَۃً وَّتَوَفَّنَا عَلَی الْاِیْمَانِ وَ الْاِسْلاَمِ بِرَحْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَؕ، اَلّٰلھُمَّ بِعِزِّ الْحَسَنِ وَ اَخِیْہِ وَ اُمِّہٖ وَ اَبِیْہِ وَجَدِّہٖ وَ بَنِیْہِ فَرِّجْ عَنَّا مَا نَحْنُ فِیْہِؕ۔
پھر سات بار یہ دعا پڑ ھے
سُبْحَانَ اللّٰہِ مِلْ أَ لْمِیْزَانِ وَ مُنْتَھَی الْعِلْمِ وَ مَبْلَغَ الرِّضٰی وَ زِنَۃَ الْعَرْشِ لاَمَلْجَأَ وَلاَ مَنْجَأَ مِنَ اللّٰہِ اِلاَّ اِلَیْہِؕ، سُبْحَانَ اللّٰہِ عَدَدَ الشَّفْعِ وَالْوَتْرِ وَعَدَدَ کَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّاتِ کُلِّہَا نَسْئَلُکَ السَّلاَمَۃَ بِرَحْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَؕ، وَھُوَ حَسْبُنَا وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُؕ، نِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِیْرُؕ، وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِؕ، وَصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنَاتِ وَ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ عَدَدَ ذَرَّاتِ الْوُجُوْدِ وَ عَدَدَ مَعْلُوْمَاتِ اللّٰہِ وَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَؕ۔

برائے مہربانی آپ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : عتیق سر، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : یوم عاشوراء کی دعا کے نام سے سوال نامہ میں مذکور دعا یا اور کوئی بھی دعا قرآن و حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ اور نہ ہی اس وظیفہ کی نسبت حضرت علی ابن حسین ابن علی ابن ابو طالب المعروف بہ حضرت زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ کی طرف درست ہے، کیونکہ جہاں بھی یہ وظیفہ ملتا ہے بغیر سند کے ملتا ہے، مثلاً عالم حسین فقری نے اپنی کتاب مجموعہ وظائف میں یہ وظیفہ لکھا ہے جو بغیر سند کے ہی مذکور ہے۔

نیز اس دعا میں متعدد انبیاء کرام علیہم السلام کے واقعات کی طرف نسبت کرکے دعا کی گئی ہے، تو معلوم ہونا چاہیے کہ اس میں یہ واقعہ کہ یوم عاشوراء کو حضرت موسی علیہ السلام کی قوم کو فرعون سے نجات ملی صحیح سند کے ساتھ مذکور ہے۔ مزید تین واقعات ضعیف سند سے ہیں جو قابل قبول ہیں اور بیان کیے جاسکتے ہیں،
حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہونا
حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑ پر ٹھہری
حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش
ان کے علاوہ بقیہ واقعات معتبر نہیں ہیں، یعنی یہ واقعات دس محرم کو ہی واقع ہوئے تھے اس کا کوئی پختہ ثبوت نہیں ہے۔ چنانچہ جب یہ واقعات معتبر ہی نہیں ہیں تو پھر ان کے حوالے سے دعا کرنا کیسے درست ہوسکتا ہے؟ مثلاً يا رافِعَ اِدْريسَ اِلَى السَّمآءِ يَوْمَ عاشُورآءَ اے ادریس علیہ السلام کو عاشوراء کے دن آسمان پر اٹھانے والے۔

سب سے بڑا اعتراض اس دعا کی فضیلت پر یہ ہوتا ہے کہ قرآن کریم کے بیان کے مطابق جب موت کا وقت متعین ہے اور اس میں ایک لمحہ کی کمی بیشی نہیں ہوسکتی تو صرف اس دعا کے پڑھ لینے سے وہ سال بھر موت سے محفوظ کیسے ہوجائے گا؟ اور جس سال وہ یہ دعا نہ پڑھے تو اس سال اسے اپنے مرنے کا اندیشہ لگا رہے گا، چنانچہ اس وظیفہ کی وجہ سے عقیدہ میں بگاڑ کا بھی اندیشہ ہے، لہٰذا اس دعا کا پڑھنا پڑھانا اور اسے پھیلانا کچھ بھی درست نہیں ہے۔

قال اللہ تعالیٰ : وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ۔ (سورہ اعراف، آیت : ٣٤)

عَنْ عَائِشَةَ رضی اللہ عنہا قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ ۔(صحیح مسلم، رقم : 1718)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
09 محرم الحرام 1443

10 تبصرے:

  1. شکریہ مفتی صاحب صحیح رہنمائی کرنے کے لئے
    جزاک اللہ

    جواب دیںحذف کریں
  2. جزاك الله خير واحسن الجزاء

    جواب دیںحذف کریں
  3. ماشاءاللہ
    اللہ تعالیٰ آپ کے علم و عمل اور عمر میں برکت عطا فرمائے
    آمین بجاہ سید المرسلین علیہ افضل الصلوات والسلام

    جواب دیںحذف کریں
  4. اور ایک اور بات منظر عام ہے کہ قیامت 10 محرم کو آئے گی اس کی کیا حقیقت ہے مفتی صاحب؟؟؟

    جواب دیںحذف کریں
  5. اس پر بھی ہمارا جواب لکھا ہوا ہے۔

    اس واٹس اپ نمبر 9270121798 پر رابطہ فرمائیں

    جواب دیںحذف کریں
  6. جزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء

    جواب دیںحذف کریں