بدھ، 18 اگست، 2021

حدیث "ایک تیری چاہت ہے اور ایک میری چاہت الخ" کی تحقیق

سوال :

مفتی صاحب! کیا یہ روایت درست ہے؟
إنك تريد وأريد, وإنما يكون ما أريد, فإن سلمت لما أريد كفيتك ما تريد, وإن لم تسلم لما أريد أتعبتك فيما تريد, ثم لا يكون إلا ما أريد . وكذا ذكره الحكيم الترمذي في نوادر الأصول ۔
ترجمہ : ایک تیری خواہش ہے اور ایک میری چاہت ہے، اور ہوگا وہی جو میری چاہت ہے، پس اگر تو میری چاہت کے سامنے سر تسلیم خم کرے گا تو میں تیری خواہشات کو پورا کرنے کے لئے کافی ہوجاؤں گا، اور اگر میری چاہت کے سامنے نہیں جھکا تو تجھے تیری خواہشات کے پیچھے تھکاؤں گا پھر ہوگا تو وہی جو میرا ارادہ ہوگا۔
(المستفتی : مولوی عبدالرحیم، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور روایت حدیث قدسی کے طور پر مشہور ہے، لیکن معلوم ہونا چاہیے کہ حدیث قدسی وہ کلام ہے جو قرآن کا حصہ نہ ہو اور اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے نقل فرمایا ہو۔ اگر یہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول نہ ہوتو پھر اسے حدیث قدسی نہیں کہا جائے گا۔ چنانچہ یہ روایت بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول نہیں ہے بلکہ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے منقول ہے۔ جسے حکیم ترمذی نے نوادر الاصول میں نقل کیا ہے۔ نیز اس کی سند پر بھی سخت کلام کیا گیا ہے۔ لہٰذا اس روایت کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف نسبت کرکے بیان کرنا درست نہیں۔ البتہ اس کا مفہوم قرآنی آیات (وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ) اور دیگر روایات سے ثابت ہوتا ہے یعنی اس روایت کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ ایک بندے کی خواہش ہوتی ہے اور ایک اللہ تعالیٰ کی چاہت ہوتی ہے، اور ہوتا وہی جو اللہ تعالیٰ کی چاہت ہوتی ہے، پس اگر بندہ اللہ تعالیٰ کی چاہت کے سامنے سر تسلیم خم کرے گا تو اللہ تعالیٰ بندے کی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے کافی ہوجائے گا، اور اگر بندہ اللہ تعالیٰ کی چاہت کے سامنے نہیں جھکے گا تو اللہ تعالیٰ بندے کو اس کی خواہشات کے پیچھے تھکا دیں گے پھر ہوگا وہی جو اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہوگا۔

قال الله تعالی لداود عليه السلام تريد و أريد و يكون ما أريد فإذا أردت ما أريد كفيتك ما تريد و يكون ما أريد و إذا أردت غير ما أريد عنيتك فيما تريد و يكون ما أريد۔ (نوادر الأصول فی احادیث الرسول للحکیم الترمذی، ١٠٧، بيروت)

الحديث القدسي : هو ما أضيف إلى رسول الله ﷺ وأسنده إلى ربه ﷿. مثل:»قال رسول الله ﷺ وأسنده إلى ربه ﷿: مثل: «قال رسول الله ﷺ فيما يروى عن ربه»، أو«قال الله تعالى فيما رواه عنه رسول الله ﷺ». ويقال له أيضا: الحديث الإلهي، أو الرباني.
ومناسبة تسميته «قدسيا» هي التكريم لهذه الأحاديث من حيث إضافتها إلى الله تعالى، كما أنها واردة في تقديس الذات الإلهية، قلما تتعرض لأحكام الحلال والحرام، إنما هي من علوم الروح في الحق ﷾.
ومن أمثلة الحديث القدسي :
حديث أبي هريرة قال: قال رسول الله ﷺ : قال
الله تبارك وتعالى : «أنا أغنى الشركاء عن الشرك، من عمل عملا أشرك فيه معي غيري تركته وشركه». أخرجه مسلم وابن ماجه ۔ (منهج النقد في علوم الحديث : ٣٢٣)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
08 محرم الحرام 1443

2 تبصرے:

  1. کیا ہمارے نبی ﷺ کو کالی کملی والے بولنا جایز ہے؟ اور جو لوگ بولتے ہیں وہ کیوں بولتے ہیں؟ اسکا جواب آپ اپنے telegram group میں بھیج دیں مہربانی ہوگی۔ جزاکم اللّہ

    جواب دیںحذف کریں