اتوار، 19 مئی، 2024

حج کس پر فرض ہے؟



سوال : 

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ حج کس پر فرض ہے؟ کیا اس کے لیے بھی کسی نصاب کا مالک ہونا ضروری ہے؟ مدلل رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد سلمان، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : جس طرح زکوٰۃ اور قربانی کے لیے مخصوص نصاب ہوتا ہے اس طرح حج فرض ہونے کے لیے کسی مخصوص نصاب کا مالک ہونا ضروری نہیں، بلکہ حج کے لیے جانے کی استطاعت ہونی چاہیے۔ اور استطاعت ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس کے پاس  حج کا سفرخرچ اور جن لوگوں  کی  کفالت اس شخص پر ضروری ہے، سفر  سے واپس آنے تک ان کے گذر بسر کا خرچ نکل سکے اتنے روپئے حج کے مہینوں  میں یا  حجاج کے قافلے  حج  کے لئے جن دنوں میں جاتے ہیں ان دنوں میں مذکور خرچ کسی مسلمان، آزاد، عاقل، بالغ کے پاس موجود ہو اور اس کی صحت بھی اس کی اجازت دیتی ہو تب اس پر  حج  فرض ہو گا۔


وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا۔ (سورۃ آل عمران، جزء آیت : ٩٧)

الأول : الاسلام فلا یجب علی کافر الخ۔ (غنیۃ الناسک : ۱۲)

 والثانی : العلم بکون الحج فرضاً إما بکونہ فی دارالاسلام وإما بإخبار رجلین أو رجل وامرأتین الخ۔ والحاصل أن العلم المذکور یثبت للمسلم فی دارالاسلام لمجرد الوجود فیہا سواء علم بالفرضیۃ أو لا الخ۔ (غنیۃ الناسک : ۱۳) 

الثالث والرابع : البلوغ والعقل فلا یجب علی صبی أو مجنون الخ۔ الخامس: الحریۃ فلا یجب علیٰ عبد الخ فلو حج ولو باذن المولی فہو نفل لا یسقط الفرض۔ (غنیۃ الناسک : ۱۶) 

السادس : الاستطاعۃ وہی القدرۃ علی زاد یلیق بحالہ۔ (غنیۃ الناسک : ۱۶) 

السابع : الوقت أی وجود القدرۃ فیہ وہی اشہر الحج أو ہو وقت خروج أہل بلدہ إن کانوا یخرجون قبلہا۔ (غنیۃ الناسک : ۲۲، ومثلہ فی الہندیۃ ۱؍۲۱۶-۲۱۷)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
10 ذی القعدہ 1445

1 تبصرہ: