جمعرات، 9 مئی، 2024

ایک سحری سے متعدد روزے اور چپ کا روزہ رکھنے کا حکم


سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے اگر کوئی شخص ایک سحری سے کئی روزہ رکھے اور اس میں کسی سے بھی چیت نہ کرے تو کیا ایسا کرنا درست ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد حسان، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : متعدد احادیث میں یہ مضمون وارد ہوا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے روزہ پر روزہ پر رکھنے سے منع فرمایا تو ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ و سلم تو روزہ پر روزہ رکھتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : تم میں سے کون شخص میری طرح ہے؟ میں تو اس طرح رات گزارتا ہوں میرا پروردگار کھلاتا ہے اور میری پیاس بجھاتا ہے۔ (بخاری ومسلم)

حدیث شریف میں مذکور روزہ پر روزہ رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ دو یا دو سے زائد روزے اس طرح مسلسل رکھے جائیں کہ درمیان میں افطار نہ ہو، روزہ پر روزہ رکھنے سے اس لئے منع فرمایا گیا ہے کہ ضعف اور کمزوری کا سبب ہوتا ہے جس کی وجہ سے دوسری عبادات اور طاعات میں نقصان و حرج واقع ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہ، حضرت امام مالک اور امام شافعی رحمھم اللہ نے اسے مکروہ تحریمی قرار دیا ہے۔

جمہور علماء امت کا کہنا ہے کہ روزہ پر روزہ رکھنا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے خصائص میں سے ہے اور حدیث کے ظاہر مفہوم سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے۔

چپ کا روزہ رکھنا یعنی روزہ کی حالت میں بتکلف خاموش رہنا، کوئی بات چیت نہ کرنا اور اس کو عبادت سمجھنا مجوسیوں کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے مکروہ تحریمی ہے۔ 

معلوم ہوا کہ سوال نامہ میں مذکور دونوں عمل کوئی ثواب کا کام نہیں ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات کے خلاف مکروہ تحریمی یعنی ناجائز اور گناہ کے ہیں، لہٰذا ان سے بچنا ضروری ہے۔


عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " لَا تُوَاصِلُوا ، فَأَيُّكُمْ إِذَا أَرَادَ أَنْ يُوَاصِلَ فَلْيُوَاصِلْ حَتَّى السَّحَرِ ". قَالُوا : فَإِنَّكَ تُوَاصِلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ : " إِنِّي لَسْتُ كَهَيْئَتِكُمْ، إِنِّي أَبِيتُ لِي مُطْعِمٌ يُطْعِمُنِي، وَسَاقٍ يَسْقِينِ۔ (صحیح البخاری، رقم : ١٩٦٣)

وَكَذَا صَوْمُ الصَّمْتِ وَهُوَ أَنْ يُمْسِكَ عَنْ الطَّعَامِ، وَالْكَلَامِ جَمِيعًا، لِأَنَّ «النَّبِيَّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - نَهَى عَنْ ذَلِكَ» وَلِأَنَّهُ تَشَبُّهٌ بِالْمَجُوسِ۔ (بدائع الصنائع : ٢/٧٩)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
29 شوال المکرم 1445

1 تبصرہ: