بدھ، 30 جنوری، 2019

کراماتِ اولیاء سے متعلق چند سوالات

*کراماتِ اولیاء سے متعلق چند سوالات*

سوال :

مفتی صاحب مندرجہ ذیل سوالات کے  مدلل و مفصل جواب عنایت فرمائیں نوازش ہوگی۔
1) کرامت اولیاء حق ہے جیسا کہ معجزات انبیاء حق ہے، آیا یہ کلمات کہاں تک درست ہیں؟
کیا اس طرح کی باتیں ذخیرہ حدیث میں موجود ہے؟
2) کرامات سے مراد کیا ہیں؟
3) کیا کرامت اولیاء پر  یقین رکھنا ایمان کے لیے ضروری ہے؟
4) ألا ان اولیاء اللہ لا خوف عليهم ولا ھم یحزنون ۔  کیا اس آیت سے یہ مراد لیا جاسکتا ہے کہ اولیاء اللہ اپنے قبور میں زندہ ہیں جیسا کہ شہدائے کرام زندہ ہیں؟
5)اللہ کے ولی ہونے کی واضح اوصاف کیا ہیں؟ کیا ولی کی زندگی میں پہچانا جاسکتا ہے؟
نمبر وار جواب مطلوب ہیں۔
امید ہے کہ تشفی بخش جواب عنایت فرمائیں گے۔
(المستفتی : انصاری سفیان ملی، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کرامات اولیاء معجزات کی طرح حق اور سچ ہیں، البتہ معجزات اور کرامات میں تین فرق ہیں۔

١) کرامت پیغمبر کی اتباع کی برکت سے ظاہر ہوتی ہے، اگر کسی فاسق وفاجر کے ہاتھوں پر کوئی خرق عادت امر ظاہر ہوتو وہ مکر و استدراج ہے۔ (التفسیر الکبیر للرازی، سورۃ الکھف، تحت آیہ : 9)

٢) نبی کو اپنی نبوت پر یقین ہوتاہے، بر خلاف ولی، جس کے ہاتھوں کرامت ظاہر ہوتی ہے، اسے اپنی ولایت کا علم اور اس پر یقین نہیں ہوتا۔ (التفسیر الکبیر للرازی، سورۃ الکھف :تحت آیہ :9)

٣) نبی پر اپنے معجزے کا اظہار ضروری ہے اور ولی پر اپنی کرامت کا اخفا ضروری ہے۔

کرامات اولیاء حق ہیں، لیکن یہ الفاظ باقاعدہ کسی حدیث شریف میں نہیں ہیں، بلکہ یہ ایک عقیدہ ہے جس کا ثبوت قرآن کریم اور خبر متواتر سے ملتا ہے۔

حضرت مریم علیہا السلام چونکہ نبی نہیں ہیں، ان کی کرامت قرآن کریم میں مذکور ہے کہ انہیں بے موسم کے پھل کھانے کو ملتے تھے۔حضرت زکریا علیہ السلام یہ دیکھ کر پوچھتے ہیں (یامریم انیٰ لکِ ھذا) اے مریم! تمہارے پاس یہ چیزیں کہاں سے آتی ہیں ؟ تو حضرت مریم علیہ السلام فرماتی ہیں (ھُوَمِنْ عِندِاللہ) کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔

اور خبر متواتر سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ کرامت ملتی ہے کہ آپ ایک بار مدینہ منورہ میں منبر پر تشریف فرماتھے کہ اچانک بآواز بلند آپ نے فرمایا : یا ساریة، الجبل۔اے ساریہ!پہاڑ کی طرف سے ہوشیار ہوجائیں۔ حضرت ساریہ  نہاوند میں مجاہدین کے امیر تھے۔ میدان جنگ کی پشت میں ایک پہاڑ تھا، جہاں سے دشمن اچانک حملہ کرنے کی تیاری کررہا تھا، مجاہدین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آواز سن کر پہاڑ کی طرف متوجہ ہوئے اور دشمن کی سازش ناکام بنا دی۔ دیکھیے! دشمن کی سازش سے آگاہ ہونا، مجاہدین کو خبردار کرنا، آپ کی آواز کا مدینہ سے نُہاوند تک،پہنچ جانا،یہ سب آپ کی کرامات کا حصہ ہیں۔

2) جو امرِ خارِق عادت کسی صالح متبعِ سنت امتی سے صادر ہو وہ کرامت ہے، ولی کی کرامت بھی اصل اس نبی کا معجزہ ہوتا ہے جس کا یہ امتی ہے اور جن کی اتباع اور پیروی کے صلہ میں اس کو یہ کمال حاصل ہوا ہے، مثلاً ہوا میں اڑنا، مسافت بعیدہ کو مختصر وقت میں طے کرلینا، غیر موسم کے پھل ملنا وغیرہ، ان کرامات کو کرامات حِسی کہا جاتا ہے۔ اس جگہ یہ بات بھی بطورِ خاص ملحوظ رکھی جائے کہ عام طور پر حِسی کرامتوں کو ہی کمال سمجھا جاتا ہے مگر اہلِ کمال کے نزدیک "کرامت معنوی" کمال ہے یعنی شریعتِ محمدیہ پر مضبوطی سے ثابت قدم رہنا زندگی کے ہر شعبے میں اور ہر موقع پر سنت اور غیر سنت کے فرق کو سمجھ کر سنت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم کی مکمل اتباع اس کا شوق اس کی لگن اور دل سے توجہ الی اﷲ اور اشتغال باﷲ کہ ایک دم اور ایک سانس بھی غفلت میں نہ گذرے، لہٰذا کسی شخص میں طریقۂ سنت کی اتباع کے بغیر اگر کوئی تعجب کی چیز دیکھنے میں آئے تو وہ ہرگز کرامت نہیں بلکہ استدراج اور شیطانی حرکت ہے۔

چنانچہ سلطان العارفین شیخ بایزید بسطامی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں : اگر تم کسی کو دیکھو کہ اس کو عجیب و غریب باتیں ملی ہیں، ہوا میں اڑتا ہے، فضا ء میں چار زانو بیٹھتا ہے ۔ پانی پر چلتا ہے تو جب تک وہ شریعت اور طریقہ ٔ سنت کا پابند نہ ہو اسے خیال میں نہ لاؤ ۔ (البلاغ المبین فارسی ص ۴۶/رسالۂ قشیریہ ص ۱۵)

ایک مرتبہ حضرت بسطامی رحمہ اللہ سے کہا گیا کہ فلاں شخص ایک رات میں مکہ پہنچ جاتا ہے تو آپ نے فرمایا کہ شیطان تو ایک جھپک میں مشرق سے مغرب پہنچ جاتا ہے حالانکہ وہ اﷲ کی لعنت میں گرفتار ہے۔ (بصائر العشائر ص ۶۱۲)

اسی طرح ہر ولی  کامل سے حِسی کرامت کا صادر ہونا ضروری نہیں، بلکہ بعض اولیاء کاملین یہ تمنا کیا کرتے تھے کہ کاش ان سے کوئی کرامت صادر نہ ہوتی، اور بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی بلند مرتبہ ولی سے کرامت ظاہر نہیں ہوتی اور ایسے ولی سے کرامت ظاہر ہوتی ہے جو مقام و مرتبہ میں پہلے کی بہ نسبت کم درجہ کا ہوتا ہے۔(١)

3) کرامات اولیاء کو حق اور سچ ماننا اہلِ سنت و الجماعت کے عقائد میں ہے، اس کا انکار کرنے والا بدعتی اور فاسق ہے، لیکن ایسے شخص پر کفر کا حکم نہیں ہے۔(٢)

4) سوال نامہ میں مذکور آیت کا اولیاء اللہ کے اپنی قبروں میں زندہ ہونے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

معلوم ہونا چاہیے کہ اسلامی روایات کی رو سے ہرمرنے والے کو برزخ میں ایک خاص قسم کی حیات ملتی ہے جس سے وہ قبر کے عذاب وثواب کو محسوس کرتا ہے اس میں موٴمن وکافر یا صالح و فاسق میں کوئی فرق نہیں لیکن اس حیاتِ برزخی کے مختلف درجات ہیں ایک درجہ تو سب کو عام وشامل ہے، کچھ درجے انبیاء وصلحاء کے لیے مخصوص ہیں، ان میں بھی باہمی تفاضل ہے، انبیاء کی حیات سب سے اقوی ہے اس کے بعد شہداء کی حیات ہے اور یہ شہداء عام ہیں، چاہے حقیقی شہداء ہوں مثلاً اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہوئے شہید ہوئے ہوں یا حکمی جیسے موٴذن، محتسب، طالب علم، مبطون وغیرہ وغیرہ۔ ان ہی شہداء میں بعض اولیاء بھی شامل ہیں، چنانچہ حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے بیان القرآن (۱/۸۸، مکتبہ الحق) میں لکھا ہے ”البتہ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اولیاء وصالحین بھی اس فضیلت میں شہداء کے شریک ہیں سو مجاہدہٴ نفس میں مرنے کو بھی معنیً شہادت میں داخل سمجھیں گے اس طور پر وہ شہدا ہوئے“۔(دارالافتاء دارالعلوم دیوبند، رقم الفتوی 43097)

5) اولیاء اللہ کی حقیقی پہچان مشکل ہے، ظاہری پہچان اتباع سنت ہے، جو شخص جس قدر زیادہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت اور طریقوں کا متبع ہوگا اسی قدر زیادہ بزرگ اور اللہ تعالیٰ کے قریب ہوگا۔

١) الکرامۃ خارق للعادۃ الا انہا غیرمقرونۃ بالتحدی وہوکرامۃ للولی (شرح فقہ اکبر ص۹۵)

وقد قالوا الاستقامۃ خیر من الف کرامۃ۔(شرح فقہ اکبر،ص۱۹۸، مطبوعہ مجتبائی دہلی)

وکرامات الأولیاء حق، ہو العارف باللہ تعالیٰ وصفاتہ حسب ما یمکن، المواظب علی الطاعۃ، المجتنب عن المعاصي، المعرض عن إنہماک في اللذات والشہوات، وکرامتہ ظہور أمر خارق للعادۃ من قبلہ غیر مقارن لدعوی النبوۃ، فما لا یکون مقرونا بالإیمان والعمل الصالح یکون استدارجا۔ (شرح عقائد، مبحث کرامات الأولیاء حق، مکتبہ نعیمیہ دیوبند ۱۴۴، شامي، کتاب الجہاد، باب المرتد، مطلب في کرامات الأولیاء حق، کراچی ۳/ ۵۵۱، زکریا ۶/ ۴۰۹)

٢) کرامات الأولیاء ثابتۃ علی مادلّت علیہ الأخبار الثابتۃ والآیات المتواترۃ ولاینکرہا إلّا المبتدع الجاحد أو الفاسق الحائد الخ۔ (تفسیر قرطبي، سورۃ الکہف: تحت تفسیر الآیۃ : ۷۷، دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱۱/۲۰)
مستفاد : فتاوی رحیمیہ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
23 جمادی الاول 1440

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں