ہفتہ، 19 جنوری، 2019

جترا میں شرکت اور اس میں خرید وفروخت کا حکم

*جترا میں شرکت اور اس میں خرید وفروخت کا حکم*

سوال :

جترا جو کہ ہندوؤں کا مذہبی میلہ ہے اس میں مسلمانوں کا جانا، میلے میں مسلم دکاندار کا دکان لگاکر چیزیں فروخت کرنا اور دیوی کے نام بلی چڑھانے والے جانوروں کو کاٹنا اور اس کے گوشت و چمڑے کو خریدنا کیسا ہے؟
(المستفتی : عامر ایوبی، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : غیر قوموں کے تہوار ظاہر ہے ان کے مشرکانہ عقائد پر مبنی ہوتے ہیں، اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارے لئے شرک سے بیزاری اور بے تعلقی کا اظہار ضروری ہے۔ چنانچہ ان کے تہوار میں کسی بھی قسم کی شرکت سے انکے عقائد اور نظریات کی تائید و حمایت اور تقویت پائی جاتی ہے۔

مجمع النوازل میں ہے :
مجوسی لوگ اپنے نیروز کے تہوار کے موقع پر کسی جگہ جمع ہوئے ہوں، ان کو دیکھ کر کوئی مسلمان یہ کہے کہ ’’یہ بہت ہی اچھا تہوار اور کیا ہی عمدہ طریقہ ہے‘‘ تو اس طرح کہنے کہ وجہ سے وہ ایمان سے نکل جائے گا۔

 لہٰذا صورت مسئولہ میں مسلمانوں کا ہندوؤں کے مذہبی میلے (جترا) میں شرکت خواہ بغرض تفریح ہو، ایسا عمل ہے جس سے مسلمانوں کا عقیدہ خراب ہونے کا اندیشہ ہے، اور ایسے لوگ حدیث شریف " من کثر سواد قوم فہو منہم‘‘۔(کنز العمال ۹؍۲۲ رقم: ۲۴۷۳۵)
(ترجمہ : جو شخص کسی قوم کی تعداد میں اضافہ کا سبب بنا اس کا شمار اسی قوم میں ہوگا) کے مصداق ہوکر سخت گناہ گار ہوں گے، اسی طرح موجودہ ملکی حالات کے پیشِ نظر بھی اس سے اجتناب ضروری ہے کہ اس کی وجہ سے فتنہ و فساد کا خطرہ بھی ہوتا ہے۔

نیز اِس طرح کے میلوں میں دوکان لگانے سے چونکہ غیرمسلموں کی مذہبی تقریب کی شان وشوکت میں اِضافہ ہوتا ہے، جو تعاون علی المعصیت شمار میں ہوکر شرعاً ناجائز ہوگا، جس سے احتراز ضروری ہے۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
غیرمسلموں کے مذہبی میلے میں بہ غرض تجارت بھی نہیں جانا چاہئے؛ کیونکہ خرید و فروخت کرنے والوں سے بھی میلے کی رونق بڑھتی ہے اور کفار کے مذہبی میلے کی رونق بڑھانا مناسب نہیں؛ باقی اگر ”میلہ“ مذہبی نہ ہو؛ بلکہ ”تجارتی“ میلہ ہو تو ا س میں بہ غرض تجارت جانے کی گنجائش ہے، بس اپنی نگاہ نیچی رکھنے کی کوشش کرے۔ (امداد الاحکام : ۴/۳۸۵، ط: کراچی/رقم الفتوی : 163659)

غیراللہ کے لیے ذبح کیا گیا جانور مردار کے حکم میں ہے، لہٰذا ایسے جانور کے گوشت کی خرید و فروخت جائز نہیں ہے، اسی طرح ایسے جانور کی کھال کو دباغت (نمک وغیرہ لگاکرخشک کرلینا) دیئے جانے سے پہلے خریدنا بھی جائز نہیں ہے، یہ بیع باطل و فاسد ہے، اور ظاہر ہے وہاں ایسے جانوروں کے چمڑے بغیر دباغت دیئے ہی فروخت کئے جاتے ہوں گے۔ نیز ایسے جانوروں کا کاٹنا اور بنانا مسلمان قصاب کے لیے تعاون علی المعصیت ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔

وفي مجمع النوازل : اجتمع المجوس یوم النوروز، فقال مسلم : سیرۃ حسنہ وضعوھا، کفر، أي لأنہ استحسن وضع الکفر مع تضمن استقباحہ سیرۃ الإسلام۔ (شرح الفقہ الأکبر،ص:۲۲۹، فصل في الکفر صریحا وکنایۃ، لا یحرم کل …الخ، یاسر ندیم دیوبند)

لکن الأولیٰ للمسلمین أن لا یوافقوا أہل الذمۃ علی مثل ہٰذہ الأحوال لإظہار الفرح والمسرۃ۔ (خانیۃ : ۶؍۳۳۳)

اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِیْرِ وَمَا اُہِلَّ بِہِ لِغَیْرِ اللّٰہ۔ (سورۃ البقرۃ : آیت، ۱۷۳)

حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَمَا اُہِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہِ ۔ (سورۃ المائدۃ : آیت۳)

ذُبِحَ لِقُدُومِ الْأَمِيرِ وَنَحْوِهِ كَوَاحِدٍ مِنْ الْعُظَمَاءِ يَحْرُمُ لِأَنَّهُ أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ وَلَوْ ذَكَرَ اسْمَ اللَّهِ تَعَالَى۔ (الدر المختار مع الشامی/ کتاب الذبائح ۹؍۴۴۹)

وَإِنْ لَمْ يَكُنْ مَدْبُوغًا وَلَا مَذْبُوحًا لَا يَنْعَقِدُ بَيْعُهُ؛ لِأَنَّهُ إذَا لَمْ يُدْبَغْ وَلَمْ يُذْبَحْ بَقِيَتْ رُطُوبَاتُ الْمَيْتَةِ فِيهِ فَكَانَ حُكْمُهُ حُكْمَ الْمَيْتَةِ -إلی- وَلِهَذَا يَطْهُرُ الْجِلْدُ بِالدِّبَاغِ حَتَّى يَجُوزُ بَيْعُهُ لِزَوَالِ الرُّطُوبَةِ عَنْهُ وَلَا رُطُوبَةَ فِي هَذِهِ الْأَشْيَاءِ، فَلَا تَكُونُ حَرَامًا۔ (بدائع الصنائع : ٥/١٤٢)

قال اللّٰہ تبارک وتعالیٰ : وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ۔ (سورۃ المائدة، آیت ۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
12 جمادی الاول 1440

1 تبصرہ: