بدھ، 23 جنوری، 2019

قرأت شروع ہوجائے تو مقتدی کے لیے ثناء پڑھنے کا حکم

*قرأت شروع ہوجائے تو مقتدی کے لیے ثناء پڑھنے  کا حکم*

سوال :

مفتی صاحب اگر کوئی رکعت چھوٹ جائے تو کیا ثناء پڑھی جائے گی؟ اگر ظہر یا عصر کی نماز ہے اور جماعت کھڑی ہو جائے تو ثنا کب پڑی جائے گی؟ فجر مغرب اور عشاء میں اگر یہی صورت ہو تو ثناء کے لیے کیا حکم ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد عاصم، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر کسی شخص کی کوئی رکعت چھوٹ جائے تو جب وہ اپنی نماز مکمل کرنے کے لیے کھڑا ہوگا تب پہلے ثناء پڑھے گا اس کے بعد تعوذ تسمیہ (اعوذ باللہ، بسم اللہ) اور قرأت کرے گا۔

اور اگر پہلی رکعت میں اس وقت نماز میں داخل ہوا کہ امام صاحب قرأت میں مشغول ہوچکے تھے تو وہ ثناء نہیں پڑھے گا، بلکہ خاموش رہ کر قرأت سنے گا کیوں کہ ثناء پڑھنا سنت ہے اور قرأتِ قرآن کا سننا واجب ہے، اس صورت میں اس پر ثناء کا پڑھنا ساقط ہوجائے گا۔

البتہ سری نماز یعنی ظہر اور عصر میں ثناء پڑھی جائے گی، اس لئے کہ سری نماز میں قرأت کا سننا واجب  نہیں  ہے بلکہ مقتدی کا خاموشی کے ساتھ کھڑا رہنا محض تعظیمِ قرأت کی وجہ سے مسنون ہے۔

قال اللّٰہ تعالیٰ : وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ۔ (سورۃ الأنفال،آیت : ۲۰۴)

والآیۃ دلیل لأبي حنیفۃ رضي اللہ عنہ في أن المأموم لا یقرأ في سریۃ ولا جہریۃ لأنہا تقتضي وجوب الاستماع عند قراءۃ القرآن في الصلاۃ وغیرہا۔ (روح المعانی : ۶/۲۱۸)

وَلَوْ أَدْرَكَ الْإِمَامَ بَعْدَ مَا اشْتَغَلَ بِالْقِرَاءَةِ قَالَ ابْنُ الْفَضْلِ لَا يُثْنِي. وَقَالَ غَيْرُهُ يُثْنِي وَيَنْبَغِي التَّفْصِيلُ، إنْ كَانَ الْإِمَامُ يَجْهَرُ لَا يُثْنِي، وَإِنْ كَانَ يُسِرُّ يُثْنِي. اهـ. وَهُوَ مُخْتَارُ شَيْخِ الْإِسْلَامِ خُوَاهَرْ زَادَهْ، وَعَلَّلَهُ فِي الذَّخِيرَةِ بِمَا حَاصِلُهُ أَنَّ الِاسْتِمَاعَ فِي غَيْرِ حَالَةِ الْجَهْرِ لَيْسَ بِفَرْضٍ بَلْ يُسَنُّ تَعْظِيمًا لِلْقِرَاءَةِ فَكَانَ سُنَّةً غَيْرَ مَقْصُودَةٍ لِذَاتِهَا وَعَدَمُ قِرَاءَةِ الْمُؤْتَمِّ فِي غَيْرِ حَالَةِ الْجَهْرِ لَا لِوُجُوبِ الْإِنْصَاتِ بَلْ لِأَنَّ قِرَاءَةَ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ.
وَأَمَّا الثَّنَاءُ فَهُوَ سُنَّةٌ مَقْصُودَةٌ لِذَاتِهَا وَلَيْسَ ثَنَاءُ الْإِمَامِ ثَنَاءً لِلْمُؤْتَمِّ، فَإِذَا تَرَكَهُ يَلْزَمُ تَرْكُ سُنَّةٍ مَقْصُودَةٍ لِذَاتِهَا لِلْإِنْصَاتِ الَّذِي هُوَ سُنَّةٌ تَبَعًا بِخِلَافِ تَرْكِهِ حَالَةَ الْجَهْرِ۔ (شامی : ١/٤٨٨)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
16 جمادی الاول 1440

10 تبصرے:

  1. ماشااللہ کنفیوژن دور ہو گیا

    جواب دیںحذف کریں
  2. اللہ آپ کو اس کا بہترین اجر دے

    جواب دیںحذف کریں
  3. محترم مفتی صاحب اگر امام صاحب پہلی رکعت کی رکوع میں ہو تو ثناء کا کیا حکم ہے

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. قرأت شروع ہوگئی تب ہی ثناء ساقط ہوگئی تو پھر رکوع کا کیا مسئلہ ہے؟

      حذف کریں
  4. Assalamualaikum warahmatullh حضرت اِس مسلہ کی بھی وضاحت فرمادے کے جب سری نماز میں خاموش رہنا مسنون ہے تو کیا مقتدی سورہ فاتحہ پڑھ سکتے ہیں برائے کرم جواب عنایت فرمائیں محمد عاصم یوپی سے

    جواب دیںحذف کریں