بدھ، 10 جنوری، 2024

حرمین شریفین میں غیرمسلموں کا داخلہ؟


سوال :

مفتی صاحب ! گزشتہ کچھ عرصے سے  یہ بات دیکھنے میں آرہی ہیکہ غیرمسلم مدینہ منورہ اور مسجد نبوی میں بے تکلف گھوم پھر رہے ہیں، اور وی لاگ بنارہے ہیں، کچھ غیر مسلم عورتیں تو غیر مناسب لباس میں بھی نظر آچکی ہیں، جس کی وجہ سے  مسلمانوں میں بے چینی رہتی ہے، پھر ابھی ہندستان کی غیرمسلم عورت جو مرکزی وزیر بھی ہے اس نے بھی اپنے سرکاری دورے کے درمیان شہر مدینہ منورہ اور مسجد نبوی  کا بھی دورہ کیا ہے۔ جس سے لوگ اچھنبے اور تشویش کا شکار ہیں۔ اس مسئلہ پر مکمل رہنمائی فرمائیں۔ کیا سورہ توبہ کی آیت  
فلا یقربوا المسجد الحرام بعد عامھم ھذا
اس سال کے حج کے بعد اب مشرکین مسجد حرام کے پاس بھی نا آئیں (کیونکہ پہلے مشرکین مکہ بھی حج کرتے تھے)
اس آیت میں صرف حرم مکہ داخل ہے یا مدینہ بھی؟ نیز دونوں حرم میں کیا فرق ہے وہ بھی واضح فرمادیں۔ جزاکم اللہ
(المستفتی : نعیم اشرف، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور آیت کریمہ کا ترجمہ اور تفسیر پہلے ملاحظہ فرمالیں تاکہ تمام سوالات کے جوابات صحیح طور پر سمجھ میں آجائیں۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے :
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَذَا۔ (سورہ توبہ، آیت :
ترجمہ : اے ایمان والو ! مشرک لوگ تو سراپا ناپاکی ہیں، لہٰذا وہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب بھی نہ آنے پائیں۔

اس آیت کے ذریعے مشرکین کو مسجد حرام کے قریب آنے سے منع فرما دیا گیا ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے اس کا مطلب یہ بیان فرمایا ہے کہ مشرکین کو اگلے سال سے حج کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اس لیے کہ اس آیت کریمہ کی تعمیل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جو اعلان کروایا اس کے الفاظ یہ تھے کہ لا یجمعن بعد ھذا العام مشرک، یعنی اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کرسکے گا۔ (صحیح بخاری، کتاب التفسیر، سورة براءۃ)

اس سے معلوم ہوا کہ ” مسجد حرام کے قریب نہ آنے “ کے معنی یہ ہیں کہ وہ حج نہ کریں اور یہ ایسا ہی ہے جیسے مردوں سے کہا گیا ہے کہ وہ حیض کی حالت میں عورتوں کے قریب بھی نہ جائیں، اور مراد یہ ہے کہ ان سے جماع نہ کریں، چنانچہ عورتوں کے قریب جانا ممنوع نہیں ہے۔ اسی طرح کفار حج تو نہیں کرسکتے۔ لیکن کسی اور ضرورت سے مسجد حرام یا کسی اور مسجد میں ان کا داخلہ بالکلیہ ممنوع نہیں ہے، کیونکہ کئی مواقع پر یہ ثابت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غیر مسلموں کو مسجد نبوی میں داخل ہونے کی اجازت دی۔ نیز وفد ثقیف کا واقعہ اس کا شاہد ہے کہ فتح مکہ کے بعد جب ان کا ایک وفد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے ان کو مسجد میں ٹھہرایا حالانکہ یہ لوگ اس وقت کافر تھے، صحابہ کرام نے عرض بھی کیا یا رسول اللہ یہ نجس قوم ہے، تو آپ نے فرمایا کہ مسجد کی زمین پر ان لوگوں کی نجاست کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔

البتہ امام شافعی اور امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ اس آیت کی رو سے مسجد حرام بلکہ پوری حددود حرم میں کفار کا داخلہ ممنوع ہے۔ بلکہ امام مالک کے نزدیک دوسری کسی مسجد میں بھی کسی کافر کا داخلہ جائز نہیں ہے۔ (مستفاد : توضیح القرآن)

معلوم ہونا چاہیے کہ اس آیت کریمہ میں مسجد حرام سے مراد پورا حدود حرم ہے، جس کا رقبہ کعبۃ اللہ کے اطراف میں تقریباً بائیس کلومیٹر ہے۔ اور مسجد حرام کا لفظ عام طور پر تو اس جگہ کے لئے بولا جاتا ہے جو بیت اللہ کے گرد چہار دیواری سے گھری ہوئی ہے، لیکن قرآن و حدیث میں بعض اوقات یہ لفظ پورے حرم مکہ کے لئے بھی استعمال ہوا ہے، جو کعبہ کے چاروں طرف حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوٰة والسلام کی قائم کردہ حدود سے گھرا ہوا ہے، جیسا کہ واقعہ معراج میں مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ سے باتفاق یہی معنی مراد لئے گئے ہیں، کیونکہ واقعہ معراج معروف مسجد حرام کے اندر سے نہیں بلکہ حضرت ام ہانی کے مکان سے ہوا ہے، اسی طرح آیت کر یمہ (آیت) اِلَّا الَّذِيْنَ عٰهَدْتُّمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، میں مسجد حرام سے پورا حرم ہی مراد ہے، کیونکہ جس واقعہ صلح کا اس میں ذکر ہے وہ مقام حدیبیہ پر ہوا ہے، جو حدود حرم سے باہر اس کے متصل واقع ہے۔ (جصاص)

سعودی عرب میں حکومتی طور پر حنبلی مسلک رائج ہے اور اس مسلک کے مطابق حدود حرم (جس کا رقبہ کعبۃ اللہ کے اطراف میں تقریباً بائیس کلومیٹر ہے) میں غیرمسلموں کا داخلہ شرعاً منع ہے، اور اب تک کی معلومات یہ ہیں کہ اس پر الحمدللہ عمل ہورہا ہے، یہاں غیرمسلموں کا داخلہ بند ہے۔

حدودِ حرم کے علاوہ مثلاً مدینہ منورہ وغیرہ میں غیرمسلموں کا داخلہ ممنوع نہیں ہے، یہ ہم میں سے بہت سے لوگوں کی غلط فہمی ہے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مدینہ منورہ میں بھی غیرمسلموں کا داخلہ منع ہے۔ جبکہ ان کا تجارتی، تعمیراتی اور حکومتی کام کاج وغیرہ کے لیے عارضی طور پر یہاں آنا جائز ہے، البتہ ان کا یہاں مستقل آباد اور رہائش پذیر ہو جانا منع ہے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے وصال سے پانچ دن قبل یعنی جمعرات کے دن حاضرین (جس میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی موجود تھے) کو تین باتوں کی وصیت فرمائی تھی۔ جس میں پہلی وصیت یہ تھی کہ مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دیا جائے۔ (یہاں مشرکین سے مراد تمام غیرمسلم مثلاً یہود، نصاریٰ اور ہندو سب شامل ہیں) کیونکہ دوسری روایات میں "اخرجوا اليهود والنصارى" بھی ہے، مطلب یہ ہے کہ "جزیرہ عرب" اسلام کا مرکز اور خاص قلعہ ہے، اس میں صرف اہل اسلام کی آبادی ہونی چاہیے، اہل کفر کو آبادی کی اجازت نہ دی جائے اور جو ابھی تک آباد ہیں ان کو اس علاقہ سے باہر بسا دیا جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم اور وصیت کی تعمیل کی سعادت حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آئی، انہوں نے اپنے زمانہ خلافت میں اس کی تکمیل فرمائی اور تمام غیرمسلموں کو جزیرہ عرب سے نکال باہر کیا۔

جزیرہ عرب وہ حصہ ہے جسے بحر ہند، بحر احمر، بحر شام و دجلہ اور فرات نے احاطہ کر رکھا ہے، یا طول کے لحاظ سے عدن ابین کے درمیان سے لے کر اطراف شام تک کا علاقہ اور عرض کے اعتبار سے جدہ سے لے کر آبادی عراق کے اطراف تک کا علاقہ ہے۔

اب اگر جزیرہ عرب بالخصوص مدینہ منورہ جیسے انتہائی مقدس مقام پر کسی ضرورت کے تحت عارضی طور پر غیرمسلم اگر آتے بھی ہیں تو حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ انہیں اس بات کا پابند بنائے کہ ان کے ستر چھپے ہوئے ہوں اور وہ بے پردگی، بے حیائی اور آزادی کے ساتھ یہاں نہ پھریں اور اسے معاذ اللہ تفریح کا مقام نہ سمجھیں بلکہ اس کے تقدس کا لحاظ رکھنا ان کے لیے انتہائی ضروری ہوگا، تاکہ یہاں فحاشی، عریانیت اور ناجائز امور کو فروغ نہ ملے۔ معاذ اللہ

امید ہے کہ درج بالا تفصیلات میں آپ کے تمام سوالات کے جواب مل گئے ہوں گے۔

وقال الحنفیة : لایمنع الذمي من دخول الحرم، ولایتوقف جواز دخوله علی إذن مسلم ولو کان المسجد الحرام، یقول الجصاص في تفسیر قوله تعالیٰ : ﴿اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ فَلاَیَقْرَبُوْا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ ﴾ یجوز للذمي دخول سائر المساجد۔ (الموسوعة الفقهية : ۱۷/۱۸۹)

عن الحسن أن وفد ثقیف أتوا رسول اﷲﷺ فضربت لهم قبة في مؤخر المسجد؛ لینظروا إلی صلاة المسلمین إلی رکوعهم وسجودهم، فقیل : یارسول اﷲ ! أتنزلهم المسجد وهم مشرکون؟ فقال: إن الأرض لاتنجس، إنما ینجس ابن آد م۔ (مراسیل أبي داؤد/۶، رقم : ۱۷)

عن سعید بن المسیب أن أبا سفیان، کان یدخل المسجد بالمدینة وهو کافر۔ ( مراسیل أبي داؤد /۶، رقم : ۱۸)

عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ : قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : يَوْمُ الْخَمِيسِ، وَمَا يَوْمُ الْخَمِيسِ اشْتَدَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعُهُ، فَقَالَ : " ائْتُونِي أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ أَبَدًا ". فَتَنَازَعُوا - وَلَا يَنْبَغِي عِنْدَ نَبِيٍّ تَنَازُعٌ - فَقَالُوا : مَا شَأْنُهُ أَهَجَرَ ؟ اسْتَفْهِمُوهُ. فَذَهَبُوا يَرُدُّونَ عَلَيْهِ، فَقَالَ : " دَعُونِي فَالَّذِي أَنَا فِيهِ خَيْرٌ مِمَّا تَدْعُونِي إِلَيْهِ ". وَأَوْصَاهُمْ بِثَلَاثٍ، قَالَ : " أَخْرِجُوا الْمُشْرِكِينَ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ، وَأَجِيزُوا الْوَفْدَ بِنَحْوِ مَا كُنْتُ أُجِيزُهُمْ ". وَسَكَتَ عَنِ الثَّالِثَةِ، أَوْ قَالَ : فَنَسِيتُهَا۔ (صحیح البخاری، رقم : ٤٤٣١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
27 جمادی الآخر 1445

8 تبصرے:

  1. ماشاء االلہ

    اللہ تعالیٰ آپ کو بہترین جزا عطا فرمائے آپ کے علم و فضل میں مزید اضافہ فرمائیں
    بر وقت رہبری پر



    جواب دیںحذف کریں
  2. مشرکین کو اگر آنے کی بار بار اجازت ملتی رہی تو یہ ان کے لۓ سیر و تفریح کا مقام بن جاۓ گا
    افسوس انہیں روکا جاۓ

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. انصاری محمود11 جنوری، 2024 کو 2:23 AM

      آپ کی بات صد فیصد درست ہے. بالکل روکنا ضروری ہے.

      حذف کریں
  3. السلامُ علیکم!
    مولانا مجھ کو کچھ روز سے ایک احل حدیث مولانا حدیث کا حوالا دے کر رفع دین کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔اور میرے منع کرنے کے باوجود وہ واٹس ایپ پر حدیث بھیج رہے ہیں۔ اور میں انکو بتا چکا ہو کہ میں دیوبندی مسلک سے ہو آپ مجھے نہ بھجیں لیکن پھر بھی وہ ایسی حرکت کر رہے ہیں۔اور مجھے بول رہے ہیں کہ تمھارے جو بھی مولانا ہیں انکو بتاؤ کہ آپ لوگوں کی نماز نہیں ہوتی ہے اور آپ اسلام سے خارج ہے۔
    جواب دیں آپ کہ میں کیا کروں ۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ

      آپ اس واٹس اپ نمبر 9021017094 پر رابطہ فرمائیں۔

      حذف کریں
  4. جزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء

    جواب دیںحذف کریں
  5. السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
    حضرت مفتی صاحب! ویب سائیٹ پر غیر شرعی امور کا اشتہار ہورہاہے لہذا پرہیز کرناچاہیے

    جواب دیںحذف کریں