بدھ، 3 جنوری، 2024

شراب پلائی جانے والی مرغیوں کا حکم


سوال :

مفتی صاحب عرض یہ کرنا ہے کہ آج کل پولٹری فارم میں مرغیوں کو جلد بڑا کرنے کے لیے نشے کے طور پر شراب پلائی جاتی ہے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ خوراک کھائے اور جلد بڑی ہوجائے تو کیا ایسی مرغی کا گوشت کھانا حلال ہوگا؟
(المستفتی : حافظ عتیق، واگلا)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مرغیوں کی غذا کی تیاری میں حرام ونجس اجزاء مثلاً : خون، خنزیر کے اجزاء، مردار کےگوشت یا پھر شراب کی شمولیت کی عموماً دو صورتیں رائج ہیں۔

پہلی صورت غذا کی تیاری میں حرام ونجس اجزاء کو اس طور پر شامل کیاجاتا ہے کہ ان اجزاء کی حقیقت وماہیت میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آتی، یہ اجزاء کے ساتھ خلط (مکس) ہوجاتے ہیں (جیسے آٹے کو شراب سے گوندھ دیا جائے تو شراب کی حقیقت میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوتی، بلکہ وہ آٹے کے ساتھ اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ مکس ہوجاتی ہے) تو اس قسم کی غذا کا حکم یہ ہے کہ نجس وحرام اجزاء کے ملنے کی وجہ سے یہ غذا بھی حرام ہے، اور ایسا کرنا یعنی مرغیوں کی فیڈ میں نجس وحرام اجزاء شامل کرنا جائز نہیں، اور اس کا بیچنا اور مرغیوں کو کھلانا بھی ناجائز ہے، لہٰذا مرغیوں کی غذا تیار کرنے والے حضرات ایسے اجزاء ہرگز شامل نہ کریں۔ 

البتہ جن مرغیوں کو ایسی غذا کھلائی گئی ہو ان کے بارے میں شرعی حکم یہ ہے کہ اگر ان کے گوشت میں کسی قسم کی بدبو پیدا نہیں ہوئی ہے تو اس صورت میں ان مرغیوں کو کھانا جائز ہوگا اور اگر مذکورہ غذا کی وجہ سے ان کے گوشت میں بدبو پیدا ہوگئی ہو تو جب تک بدبو زائل نہیں ہوجاتی اس وقت تک ایسی مرغیوں کو کھانا جائز نہیں ہوگا۔

دوسری صورت یہ ہے کہ مرغیوں کی غذا کی تیاری میں حرام ونجس اجزاء کو اس طور پر شامل کیاجاتا ہے کہ حرام اشیاء کو مختلف کیمیائی مرحلوں سے اس طرح گزارا جاتا ہے کہ ان حرام ونجس اجزاء کی اصلی حقیقت وماہیت میں تبدیلی پیدا ہوجاتی ہے اور ان کا سابقہ نام اور خاصیت نئے نام اور خاصیت میں تبدیل ہوجاتے ہیں (جیسے شراب کو سرکہ بنانے سے شراب کی حقیقت اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ ختم ہوکر حقیقتِ سرکہ میں بدل جاتی ہے) تو ا س قسم کی تبدیلی کے بعد تیار کی گئی غذا  کا استعمال شرعاً مباح ہے، اور جن مرغیوں کو ایسی غذا کھلائی گئی ہو ان کا کھانا بھی جائز ہے۔

صورتِ مسئولہ میں اگر مرغیوں کو براہ راست شراب پلائی جارہی ہے تو ایسا کرنا ناجائز اور گناہ کی بات ہے جس سے بچنا ضروری ہے۔ البتہ ایسی مرغیوں کا کھانا اس وقت تک حلال ہوگا جب تک اس کے گوشت میں بدبو نہ آنے لگے، اگر بدبو آرہی ہوتو پھر اس کا کھانا حلال نہیں۔ اس صورت میں اسے اتنے دن تک حلال غذا پر رکھا جائے گا جب تک اس کی بدبو زائل نہ ہوجائے، بدبو زائل ہوجائے تو پھر اس کا کھانا حلال ہوگا۔

قال اللہُ تعالیٰ : إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِیْرِ وَمَا أُهلَّ بِه لِغَیْرِ اللّٰه۔ (البقرۃ، آیت : ۱۷۳)

لم یجز بیع المیتة والدم والخنزیر والخمر۔ (تبیین الحقائق:٤/۳۶۲، دار الکتب العلمیۃ)

وأما خنزیر فشعره وعظمه وجمیع أجزائه نجسة۔ (البحرالرائق :١/۱۹۱)

وکره (لحمهما) أی لحم الجلالة والرمکة وتحبس الجلالة حتی یذهب نتن لحمها ولو أکلت النجاسة وغیرها بحیث لم ینتن لحمها حلت الخ۔ (شامی: کتاب الحظر والاباحۃ : ۶/۳۴۰)

وفي المنتقٰی الجلالة المکروهة التي إذا قربت وجدت منها رائحة فلاتؤکل۔ (شامی : ۶/۳۴۱)

قال السرخسي : الأصح عدم التقدیر وتحبس حتی تزول الرائحة المنتنة۔ (شامی : ۶/۳۴۱)

(و) یطهر (زیت) تنجس ( بجعله صابونا) به یفتی للبلوٰی کتنور رش بماء نجس لابأس بالخبز فیه۔ (شامی،باب الأنجاس : ۱/۳۱۵)

ثم هذه المسئلة قد فرعوها علی قول محمد بالطهارة بانقلاب العین الذی علیه الفتویٰ واختاره أکثر المشائخ خلافًا لأبي یوسف کمافي شرح المنیة والفتح وغیرهما۔ (فتاویٰ شامی، باب الانجاس : ۱/۳۱۶)

ثم اعلم أن العلة عند محمد التغیر وانقلاب الحقیقة وأنه یفتٰی للبلوٰی کما علم لما مر، ومقتضاه عدم اختصاص ذٰلک الحکم بالصابون فیدخل فیه کل ما کان فیه تغیر وانقلاب حقیقة وکان فیه بلوی عامة۔ (شامی، باب الانجاس، ۱/۳۱۶)
مستفاد : فتوی جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن، رقم الفتوی : 144003200395)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 جمادی الآخر 1445

2 تبصرے:

  1. ۱ پہلی چیز جو دکانوں پر 🐓 مرغے کا گوشت ملتا ہے چکن 🐔 کا تو کھانا بلا کراہت جائز ہے؟؟؟؟
    ۲ جو مرغی گھر 🏡 میں پالی جاتی ہے وہ باہر نالی وغیرہ میں کھا تی رہتی ہیں اور لوگوں کو دیکھا گیا ہے وہ ایسے ہی لاکے ذبح کر دیتے ہیں،، تو اس میں کوئی دقت تو نہیں؟؟؟
    جواب مرحمت فرمائیں عین نوازش ہوگی

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. جائز ہے۔ اس لیے کہ دونوں بدبو والی بات نہیں ہوتی۔

      واللہ تعالٰی اعلم

      حذف کریں