منگل، 9 جنوری، 2024

روایت "بازار میں کھانا ہلکے پن کی نشانی ہے" کی تحقیق


سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ بازار میں کھانا ہلکے پن کی نشانی ہے۔ اس حدیث کی شرح و تفصیل میں شارحین کے کیا اقوال ہیں؟ بیان فرمائیں۔
(المستفتی : محمد ابراہیم، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بعض روایات میں یہ الفاظ "الأكلُ في السُّوقِ دَناءةٌ" بازار میں کھانا ہلکے پن کی نشانی ہے) ملتے ہیں، لیکن اس میں ایک راوی محمد بن فرات کو کذاب کہا گیا ہے۔

ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بازار میں کھانے کی ممانعت سے متعلق ساری روایات باطل ہیں، عقیلی محدث نے کہا ہے کہ اس باب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے کوئی چیز ثابت نہیں۔

لہٰذا اہل فن علماء مثلاً امام بیہقی، قرطبی، ابن عربی، ابن جوزی، ذہبی وغیرہ رحمھم اللہ نے اسے غیرمعتبر قرار دیا ہے۔ لہٰذا اس روایت کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف کرکے اس کا بیان کرنا جائز نہیں ہے۔

معلوم ہوا کہ جب یہ روایت ہی معتبر نہیں ہے تو پھر اس کی تشریح کیونکر ہوگی؟ البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ بلا ضرورت بازار جانا ہی نہیں چاہیے کیونکہ بازار اچھی جگہ نہیں ہے۔ اور یہاں کھانے کی نوبت آجائے تو اس کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ ہماری وجہ سے راستہ چلنے والوں کو تکلیف نہ ہو۔

الأكلُ في السُّوقِ دَناءةٌ.
الراوي: - • ابن العربي، أحكام القرآن لابن العربي (٣/٤٣٤) • موضوع

لأكلُ في السُّوقِ دناءةٌ
الراوي: أبو هريرة • ابن الجوزي، الموضوعات لابن الجوزي (٣/١٩٧) • لا يصح • أخرجه ابن عدي في ((الكامل في الضعفاء)) (٢/٨٠)، والخطيب في ((تاريخ بغداد)) (٣/١٦٣)، والديلمي في ((الفردوس)) (٤٣٩)

الأكلُ في السُّوقِ دناءةٌ
الراوي: أبو أمامة الباهلي • ابن عدي، الكامل في الضعفاء (٦/١٤) • [فيه] عمر بن موسى لا يتابع عليه وهو في عداد من يضع الحديث متنا وإسنادا • أخرجه العقيلي في ((الضعفاء الكبير)) (٣/١٩٠)، والطبراني (٨/٢٩٧) (٧٩٧٧)، وابن عدي في ((الكامل في الضعفاء)) (٢/٨٠)

الاكْلُ في السُّوقِ دَناءةٌ
الراوي: أبو هريرة • الذهبي، سير أعلام النبلاء (١٦/٥٤٢) • روي في ذلك آثار ، ولا يثبت منها شيء • أخرجه ابن عدي في ((الكامل في الضعفاء)) (٢/٨٠)، والخطيب في ((تاريخ بغداد)) (٣/١٦٣)، والديلمي في ((الفردوس)) (٤٣٩)

وَمِنْ ذَلِكَ أَحَادِيثُ النَّهْيُ عَنْ الأَكْلِ فِي السوق كلها باطلة قَالَ الْعُقَيْلِيُّ: «لا يَثْبُتُ فِي هَذَا الْبَابِ شَيْءٌ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ»۔ (المنار المنیف : ١٣٠)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
26 جمادی الآخر 1445

5 تبصرے:

  1. جزاک اللہ مفتی صاحب!
    مگر میں نے بھی بعض مرتبہ اپنے ماتحتوں اور طلباء کو یہ جملہ حدیث کہہ کر بتایا ہے حالانکہ مجھے اس کا علم نہیں تھا!
    اللہ رب العزت مجھے معاف فرمائیں!

    جواب دیںحذف کریں
  2. جزاک اللہ خیرا کثیرا مفتی صاحب

    جواب دیںحذف کریں
  3. لیکن مفتی صاحب مکتب کے بچوں کو یہ حدیث کے طور پر یاد کرایا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں رہنماٸی فرماٸیں

    جواب دیںحذف کریں
  4. مکتب میں بچوں کو چہل حدیث میں پڑھایا جاتا ہے اِس تعلّق سے کیا حکم ہے ؟

    جواب دیںحذف کریں