بدھ، 5 اپریل، 2023

یاترا پر جارہے غیرمسلموں پر پھول نچھاور کرنا


سوال :

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین گذشتہ دنوں کل جماعتی تنظیم کی جانب سے ہندوؤں کے جلوس کے استقبال اور انکے دھرم گرو پر پھول برسانے والوں کے بارے میں؟ کیوں کہ عوام الناس میں یہ چرچا ہورہی ہے کہ استقبال کرنے والے پھول برسانے والے اسلام سے خارج ہو گئے ہیں؟ برائے کرم جواب فرما کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : عرفان الحراء، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ہندوؤں کا ایک مذہبی عمل ہے کہ وہ اپنے مقام سے پیدل یا سواری پر چلتے ہوئے ایک ایسی جگہ بڑی تعداد میں جمع ہوتے ہیں جہاں ان کی مخصوص پوجا پاٹ ہوتی ہے۔ اس کے لیے وہ مختلف شہروں سے گزرتے ہوئے جاتے ہیں، لہٰذا بحیثیت مسلمان ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اگر ہمارے شہر سے گزر رہے ہیں تو وہ امن وسکون کے ساتھ یہاں سے گزر جائیں اور انہیں کسی قسم کا جانی یا مالی نقصان نہ ہو، لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ مذہبی رواداری اور گنگا جمنی تہذیب کے نام پر ہم ان کا استقبال کرنے لگیں اور ان پر پھول نچھاور کرنے لگیں، ایسا کرنے والوں نے اگر یہ عمل انہیں حق سمجھتے ہوئے تعظیمًا نہیں کیا ہے تو ان پر کفر کا حکم تو نہیں ہے، لہٰذا عوام کی بات درست نہیں ہے کہ یہ لوگ اسلام سے خارج ہوگئے، لیکن اس عمل سے مشرکین کی مذہبی معاملہ میں حوصلہ افزائی ضرور ہوتی ہے جو شرعاً ناجائز اور حرام کام ہے، لہٰذا جس تنظیم کے کارکنان نے بھی یہ کام کیا ہے ان پر ضروری ہے کہ وہ ندامت اور شرمندگی کے ساتھ توبہ و استغفار کریں اور بہتر یہ ہے کہ اعلانیہ طور پر بھی اس عمل سے براءت کا اظہار کر دیں تاکہ دیگر مسلمانوں کو بھی اطمینان ہو اور آئندہ کوئی اور اس طرح کی حرکت نہ کرے۔

قال اللہ تعالیٰ : وَلاَ تَعَاوَنُوْا عَلیَ الاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ۔ (سورۃ المائدہ، آیت :٢)

عن عبد اللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال : من کثر سواد قوم فہو منہم، ومن رضی عمل قوم کان شریکاً في عملہ۔ (کنز العمال، ۹؍۲۲، رقم الحدیث: ۲۴۷۳۵ مکتبۃ التراث الإسلامي حلب)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
13 رمضان المبارک 1444

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں