منگل، 18 اپریل، 2023

لوبھی گاؤں میں لباڑ بھوکا نہیں مرتا

✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی
     (امام وخطیب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام ! آئے دن شہر میں یہ بات سننے اور پڑھنے میں آتی ہے کہ فلاں کمپنی یا فلاں شخص نے لوگوں کے ساتھ فراڈ کیا ہے اور لوگوں کے لاکھوں، کروڑوں روپے لے کر منظر عام سے غائب ہوگئے۔ چنانچہ پیش نظر مضمون میں ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ ایسا کیونکر ہوتا ہے؟ اور ایسے حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

محترم قارئین! شہری سطح پر ایک کہاوت مشہور ہے کہ "لوبھی گاؤں میں لباڑ بھوکا نہیں مرتا" جس کا مطلب یہ ہے کہ لالچیوں کے گاؤں میں دھوکہ بازوں کی بڑی چاندی ہوتی ہے، وہ ایسی جگہ کبھی بھوکے نہیں مرتے بلکہ وہ لالچیوں اور بھولے بھالے لوگوں کو سبز باغ دکھا کر ان کا مال ہڑپ کر جاتے ہیں۔ اس کہاوت کو ہم نے گوگل پر بھی سرچ کیا، لیکن گوگل پر اس کا کوئی جواب ہی نہیں آیا۔ یعنی یہ اردو زبان کی کہاوت نہیں ہے بلکہ یہ خالص مالیگاؤں کی کہاوت ہے جسے ہماری معلومات کے مطابق مالیگاؤں کے ہی ایک منجھے ہوئے مرحوم سیاست دان نے کہا تھا، اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بات کوئی ایسا شخص ہی کہہ سکتا ہے جو شہر کی رگ رگ سے واقف ہو۔ خلاصہ یہ کہ یہ کہاوت بالکل سچی اور مبنی برحقیقت ہے۔ جسے شہر میں اکثر سنا جاتا ہے بلکہ اس کا واضح طور پر ظہور ہوتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔

آج آپ کو گلی گلی مضاربت اور پارٹنر شپ کے نام پر پیسہ لے کر نفع بول کر سود دینے والے مل جائیں گے۔ ایک لاکھ پر ماہانہ چار ہزار سے لے کر دسیوں ہزار تک دینے کا لالچ دیا جاتا ہے اور پھر دو چار مہینے نفع کے نام پر سود دے کر بقیہ رقم لے کر نو دو گیارہ ہوجاتے ہیں یا پھر کچھ گھاگ اور ڈھیٹ قسم کے لوگ تو شہر میں ہی رہتے ہیں، لیکن مجال ہے کہ آپ ان سے اپنی اصل رقم وصول سکیں۔

معلوم ہونا چاہیے کہ عموماً مضاربت اور پارٹنر شپ کے نام پر شہر میں سود کا لین دین ہورہا ہے جو شرعاً ناجائز اور ملعون عمل ہے۔ اور اس کی وجہ سے تجارت اور روزی میں جو نحوست اور بے برکتی آجاتی ہے وہ الگ نقصان ہے۔

باخدا ہم ایسے میں معاملات میں متاثر ہونے والوں اور ٹھگے جانے والوں کے زخم پر نمک چھڑکنا نہیں چاہتے بلکہ ہم ان کے غم میں برابر کے شریک ہیں اور انہیں دعوتِ محاسبہ دے رہے ہیں کہ آخر کون سی وجوہات ہیں کہ جو ہم ایک سوراخ سے بار بار ڈسے جارہے ہیں؟ ہمیں اس پر غور کرنا چاہیے۔ کیا ہماری آمدنی میں کہیں کوئی کمی کوتاہی ہے؟ کیونکہ ہمارے شہر میں ایک کہاوت یہ بھی کہی جاتی ہے کہ سُم کا مال شیطان کھاتا ہے، جو حقیقت بھی ہے کہ حرام مال، غلط جگہوں پر ہی جاتا ہے۔ کیا ہم زکوٰۃ باریکی کے ساتھ مکمل طور پر ادا کررہے ہیں؟ کیونکہ جس مال کی زکوٰۃ ادا ہوجاتی ہے وہ محفوظ ہوجاتا ہے۔ کیا ہم استطاعت ہونے کے بعد بھی مستحقین کی نفلی صدقات سے مدد نہیں کررہے ہیں؟ کیونکہ اخلاص کے ساتھ صدقہ کرنے سے بلاشبہ مال بڑھتا ہے۔ کیا ہزاروں، لاکھوں روپے زائد موجود ہونے کے بعد بھی ہم اچھے، معتبر اور انتہائی ضرورت مند لوگوں کو بھی قرض کیوں نہیں دیتے ہیں؟ جبکہ قرض دینے کا اجر تو بہت بڑھا ہوا ہے۔ اور بلاشبہ یہ بھی مال کی حفاظت کا ذریعہ بنے گا۔ ان شاءاللہ

آج بہت سے لوگوں کے پاس اپنی ضرورت سے زائد لاکھوں روپے نقد پڑے ہوتے ہیں، جس سے وہ کسی مستحق کی مدد کرنے، ضرورت مندوں کو قرض دینے کے بجائے اسے اور بڑھانے کے چکر میں شرعی رہنمائی لیے بغیر ایسے لباڑوں کے دھوکہ میں آجاتے ہیں۔ جس سے ان کی کیفیت "نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم" جیسی بن جاتی ہے۔ لہٰذا ایسے لوگوں کو اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔

اخیر میں ہماری شہریان سے انتہائی عاجزانہ اور مخلصانہ درخواست ہے کہ کسی بھی کمپنی اور فرد کے پاس مضاربت وغیرہ کے نام پر پیسے لگائیں ہی نہیں۔ کیونکہ اس طرح کے معاملات میں نوے/ پچانوے فیصد معاملات یا تو غیرشرعی ہوتے ہیں یا پھر ان میں شروع سے ہی دھوکہ کی نیت ہوتی ہے یا پھر بعد میں دھوکہ کردیا جاتا ہے۔ اور اگر واقعتاً کوئی انتہائی معتبر شخص یا کمپنی ہوتو اس کے تجارتی معاملات کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے کہ یہ شریعت کے اصولوں کے مطابق ہے یا نہیں؟ اور اس کے لیے جید مفتیان کرام کے ساتھ ساتھ وکلاء سے بھی رہنمائی ضرور حاصل کی جائے۔ اور اس میں بھی اندھا دھند کسی پر اعتماد کرلینا اور گھر، کارخانہ، زمین بیچ کر اس میں لاکھوں روپے لگادینا انتہائی حماقت اور بے وقوفی کی بات ہے، کیونکہ کسی کی پیشانی پر لکھا ہوا نہیں ہوتا کہ وہ کب دھوکہ دے دے؟ لہٰذا اگر کبھی خدانخواستہ فراڈ اور دھوکہ دہی کے معاملات سامنے آ بھی جائیں تو بندہ کنگال ہوکر سڑک پر نہ آ جائے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کی مال کی حرص سے حفاظت فرمائے، ہر معاملات میں شریعت کو مقدم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے، اور ہم سب کو رزق حلال اور طیب عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین


پارٹنرشپ اور کہیں پیسے لگاکر نفع میں حصہ داری کرنے والے کاروبار کی شرعی حیثیت کو مکمل طور پر سمجھنے کے لیے درج ذیل جواب ملاحظہ فرمائیں :

مضاربت اور مشارکت کے کاروبار کی شرعی حیثیت

4 تبصرے: