بدھ، 18 نومبر، 2020

آدھی دھوپ اور آدھی چھاؤں میں بیٹھنا

سوال :

مفتی صاحب! انسان کا جسم آدھا دھوپ میں اور آدھا چھاؤں میں رہے تو کیا مسئلہ ہے؟ وضاحت کے ساتھ بیان فرمائیں۔
(المستفتی : حافظ شعیب اختر، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بعض روایات میں مذکور ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے کچھ دھوپ اور کچھ سایہ میں بیٹھنے سے منع فرمایا ہے۔

حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص سایہ میں بیٹھا ہو اور پھر وہ سایہ ختم ہو رہا ہو بایں طور کہ اس سایہ کی جگہ دھوپ آجانے کی وجہ سے اس کے جسم کا کچھ حصہ دھوپ میں اور کچھ حصہ سایہ میں ہو تو اس کو چاہیے کہ وہاں سے اٹھ جائے اور ایسی جگہ جا کر بیٹھ جائے جو پوری طرح سایہ میں یا پوری طرح دھوپ میں ہو۔ (ابوداؤد)

کیونکہ جب کوئی شخص ایسی جگہ بیٹھا یا لیٹا ہوتا ہے کہ کچھ دھوپ میں ہو اور کچھ سایہ میں، تو اس کے جسم پر ایک ہی وقت میں دو متضاد چیزوں کے اثر انداز ہونے کی وجہ سے اس کا مزاج بگاڑ اور خلل کا شکار ہوسکتا ہے۔

ایک روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دھوپ اور سائے والی جگہ پر بیٹھنے سے منع فرمایا، اور فرمایا یہ شیطان کے بیٹھنے کی جگہ ہے۔ (مسنداحمد)

اس روایت میں شیطان کے بیٹھنے کی جگہ سے مراد یہ ہے کہ شیطان جسے پریشان کرنا چاہتا ہے اس کو ایسی جگہ پر بیٹھنے یا لیٹنے کی طرف راغب کرتا ہے اور گویا اس جگہ پر کسی شخص کے بیٹھنے یا لیٹنے کا سبب شیطان بنتا ہے اور اس سے شیطان اپنے مقصد کہ وہ شخص تکلیف و دکھ میں مبتلا ہو کامیاب ہوجاتا ہے۔ کیونکہ شیطان جس طرح انسان کے دین کا دشمن ہے اسی طرح اس کے بدن کا بھی برا چاہنے والا ہے۔

خلاصہ یہ کہ آپ علیہ السلام کا یہ حکم طبی اعتبار سے ہے کیونکہ اس میں نقصان کا اندیشہ ہے ورنہ شرعاً اس طرح کرنے میں کوئی گناہ نہیں، بلکہ اس سے بچ جانا بہتر ہے۔ یعنی یہ حکم وجوبی اور تاکیدی نہیں ہے، بلکہ مشفقانہ اور خیرخواہی پر مبنی ہے۔

وعن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إذا كان أحدكم في الفيء) : بفتح فسكون أي: في ظل (فقلص) أي: ارتفع (عنه الظل) أي: بعضه وفيه تفنن (فصار بعضه في الشمس، وبعضه في الظل) بيان لما قبله (فليقم) أي: فليتحول منه إلى مكان آخر يكون كله ظلا أو شمسا؛ لأن الإنسان إذا قعد ذلك المقعد فسد مزاجه لاختلاف حال البدن من المؤثرين المتضادين، كذا قاله بعض الشراح، وتبعه ابن الملك، ولأنه خلاف العدالة الموجبة لاختلال الاعتدال مع أنه تشبه بمجلس المجانين، ونظيره النهي عن لبس إحدى النعلين، والأولى أن يعلل بما علله الشارع من قوله الآتي: فإنه مجلس الشيطان. (رواه أبو داود) أي: مرفوعا.

(وفي شرح السنة عنه) أي: عن أبي هريرة (قال) . أي: أبو هريرة (إذا كان أحدكم في الفيء فقلص) أي: ارتفع الفيء (عنه فليقم، فإنه) أي: ذلك المجلس (مجلس الشيطان) الظاهر أنه على ظاهره، وقيل: إنما أضافه إليه؛ لأنه الباعث عليه ليصيبه السوء، فهو عدو للبدن كما هو عدو للدين، ويدل عليه إطلاق قوله سبحانه: {إن الشيطان لكم عدو فاتخذوه عدوا} [فاطر: 6] ويمكن أن تكون عداوته للبدن بناء على استعانته بضعف البدن على ضعف الدين. (هكذا رواه معمر موقوفا) أي: على أبي هريرة، لكنه في حكم المرفوع. قال التوربشتي: الأصل فيه الرفع وإن لم يرد مرفوعا؛ لأن الصحابي لا يقدم على التحدث بالأمور الغيبية إلا من قبل الرسول صلوات الله عليه وسلامه، لا سيما وقد وردت به الروايات من غير هذا الوجه عنه صلى الله عليه وسلم  والحق الأبلج فيه وفي مثاله التسليم لنبي الله عليه السلام في مقاله، فإنه يعلم ما لا يعلم غيره ويرى ما لايرى اهـ. في الجامع الصغير: أنه صلى الله عليه وسلم «نهى أن يجلس الرجل بين الضح والظل، وقال: " مجلس الشيطان» ". رواه أحمد بسند حسن عن رجل مرفوعا"۔ (مرقاة المفاتيح : 7 / 2983)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
01 ربیع الآخر 1442

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں