منگل، 15 اگست، 2023

جشنِ آزادی یا سونامئی بدتمیزی؟

✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی
     (امام وخطیب مسجد کوہ نور )

قارئین کرام ! شہر عزیز مالیگاؤں صرف مسجدوں، میناروں، علماء، حفاظ اور تعلیم یافتہ افراد کا شہر نہیں ہے، بلکہ یہاں ایک ایسی مخلوق بھی بستی ہے جسے نہ تو دین سے کچھ لینا ہے نہ دنیا سے اور نہ ہی ان میں اخلاق، سنجیدگی اور شعور نام کی کوئی چیز ہے۔

دین، دنیا، اخلاق اور شعور سے عاری یاجوج ماجوج جیسی اس مخلوق کو آپ یومِ آزادی اور یومِ جمہوریہ کے موقع پر اپنے ٹھکانوں سے نکلتا ہوا اور شہر کی شاہراہوں پر طوفانِ بدتمیزی برپا کرتا ہوا دیکھیں گے، اس طوفانِ بدتمیزی کو طوفان کہنا ہلکا معلوم ہوتا ہے، اس لیے اسے سونامئ بدتمیزی کہا جائے تو زیادہ صحیح ہوگا۔

یہ ایسی مخلوق ہے جسے آزادی اور جمہوریت کا مطلب اور اس کا مفہوم بھی معلوم نہیں ہے، انہیں کسی ایک مجاہدِ آزادی اور اس کارنامے کی مکمل معلومات بھی نہیں ہوگی۔ بلکہ ان میں سے بہت سوں کو آزادی کا سَن اور کس سال جمہوریت کا نفاذ ہوا؟ یہ تک معلوم نہیں ہوگا۔

لیکن گذشتہ چند سالوں سے ان دونوں مواقع پر بڑی پابندی کے ساتھ اس مخلوق کا قافلہ جانوروں کی طرح آوازیں نکالتا ہوا۔ جو کتوں اور گدھوں کو بھی یہ سوچنے پر مجبور کررہا ہوتا ہوگا کہ آوازیں تو ہماری مکروہ اور ناپسندیدہ ہیں، یہ کون سی مخلوق آگئی ہے جو ہم سے تیز اور مکروہ آواز نکالنے میں ہمیں پیچھے چھوڑ رہی ہے؟ اب ان کی جسمانی آواز کے ساتھ انتہائی مکروہ اور تکلیف دہ باجوں اور سائلنسر کی آواز بھی شامل ہوگئی ہے۔

قارئین ! سب سے زیادہ خرافات اور منکرات قدوائی روڈ شہیدوں کی یادگار کے پاس ہورہے ہیں، یہاں رات سے ہی ڈی جے پر کان پھاڑنے والی آواز میں فلمی گانے جاری رہتے ہیں، رنگ برنگی تیز روشنیوں کا ایسا مخصوص نظم ہوتا ہے کہ گویا ناچنے گانے کا پورا ماحول بنا دیا گیا ہے کہ کم سمجھ اور لاابالی قسم کے نوجوان یہاں ناچے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ چنانچہ یہاں رات سے ہی نوجوانوں کا ناچنا شروع ہوجاتا ہے، اور پھر صبح میں یہاں یکے بعد دیگرے ایسے ہی ہلڑ باز نوجوانوں کا قافلہ آتا رہتا ہے، اور بقدر استطاعت اپنی بدبختی اور شقاوت کا مظاہرہ کرتا ہوا رخصت ہوتا ہے، جس میں تیز آواز سے چلانا یا کوئی بھی فضول اور بے ڈھنگے قسم کے ڈائلاگ بولنا، ناچنا، آتش بازی اور پٹاخے پھوڑنا، بائک اسٹنٹ اور بائک کے سائلنسر سے کان پھاڑ دینے والی آوازیں نکالنا، شامل ہے۔

ان ہلڑ باز نوجوانوں کی وجہ سے اطراف میں اسکول جانے والے طلباء بالخصوص طالبات اور اسکول میں ہونے والے پروگرام کس قدر ڈسٹرب ہوتے ہوں گے؟ یہ وہی بتا سکتے ہیں، ہم تو اس کا ادراک بھی نہیں کرسکتے۔

اور یہ ساری روداد آنکھوں دیکھی ہے،
بناکر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشائے  اہل  کرم دیکھتے  ہیں
کوئی سنی سنائی نہیں ہے کہ جس میں غلو یا غلطی کا اندیشہ ہو۔

لہٰذا سب سے پہلے تو ہماری انہیں نوجوانوں سے مخلصانہ اور عاجزانہ درخواست ہے کہ آپ اللہ کے لیے اپنی حیثیت کو سمجھیں، آپ قوم کا سرمایہ ہیں، سونے سے قیمتی ان ایام کو آپ یوں لغویات، خرافات اور ناجائز وحرام کاموں میں ضائع نہیں کرسکتے، ہم سب کو اللہ تعالیٰ کے یہاں اس جوانی کا حساب دینا ہے کہ ہم نے اسے کہاں لگایا؟ اُس وقت ہمارے پاس کیا جواب ہوگا؟ ہم من مانی کی زندگی نہیں گزار سکتے، ہم مسلمان ہیں، اور مسلمان شریعت کا پابند ہوتا ہے، اور اسی پابندی کی وجہ سے اسے آخرت میں ہمیشہ کی جنت کا وعدہ کیا گیا ہے، کفار اور مشرکین کے لیے کوئی پابندی نہیں ہے دنیا ان کے لیے جنت ہے، اور آخرت میں ان کے لیے جہنم ہے۔

والدین اور سرپرستوں سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھیں اور سختی سے اس بات سے روکیں کہ ان مواقع پر بائک لے کر بالکل نہ نکلیں، کیونکہ اس طرح کی ناجائز حرکتیں کرنے والے بچے آپ کی آخرت کے ساتھ ساتھ دنیا بھی برباد کریں گے اور آپ کی ذلت اور رسوائی کا سبب بنیں گے۔

سیاسی لیڈران سے بھی مؤدبانہ، مخلصانہ اور عاجزانہ گذارش ہے کہ وہ بھی اللہ کے لیے اس بدتمیزی کے طوفان بلکہ سونامی کو کسی بھی طرح روکنے کی کوشش کریں، اس لیے کہ ہم سب سے پہلے مسلمان ہیں، اور اگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں کوئی اختیار، صلاحیت اور طاقت دی ہے تو اس کا استعمال سب سے پہلے قوم کی اصلاح کے لیے کرنا ضروری ہے، ان نوجوانوں کو ترغیب دے کر ان لغویات، خرافات اور منکرات سے روکنے کی کوشش کریں، اگر یہ سیدھا طریقہ کارگر نہ ہوتو ڈپارٹمنٹ کا سہارا لیا جائے اور ایسے بگڑے گھوڑوں پر اچھی لگام کسی جائے، جس کے لیے آپ عنداللہ ماجور اور سنجیدہ شہریان کے نزدیک مشکور ہوں گے۔ ان شاءاللہ

معزز قارئین ! یومِ آزادی اور یومِ جمہوریہ پر صرف اتنا کام کیا جاسکتا ہے کہ قومی پرچم کو لہرایا جائے اور اس وقت بغیر کسی میوزک والے جائز ترانوں کو پڑھا یا بجایا جائے، شیرینی وغیرہ تقسیم کی جائے، مجاہدین آزادی اور ان کے کارناموں کا تذکرہ کیا جائے اور قوم کو یہ سمجھایا جائے کہ کس طرح ہم ملک میں امن وامان قائم رکھ کر اسے ترقی کی بلندیوں پر لے جاسکتے ہیں؟ بس اس سے زیادہ کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

اللہ تعالٰی ہم سب کو ہر جگہ شریعت کو مقدم رکھنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی دعوت دینے کی توفیق عطا فرمائے، اور اس کی برکت سے وطن عزیز ہندوستان کو امن کا گہوارا بنا دے۔ آمین یا رب العالمین

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں