بدھ، 2 اگست، 2023

ظہار سے متعلق احکام

سوال :

محترم مفتی صاحب ! ظہار کیا ہے؟ اس کی مکمل تفصیل بیان فرمائیں۔ اور اگر کوئی ظہار کرلے تو اس پر کیا حکم لاگو ہوگا؟ مدلل بیان فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : شفیق احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ظہار سے متعلق احکام قرآن کریم میں صراحت کے ساتھ بیان ہوئے ہیں، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

اَلَّذِينَ يُظٰهِرُونَ مِنْكُم مِّن نِّسَائِهِم مَّا هُنَّ أُمَّهَاتِهِمْ إِنْ أُمَّهَاتُهُمْ، إِلَّا اللاَّئِي وَلَدْنَهُمْ وَإِنَّهُمْ لَيَقُوْلُوْنَ مُنْكَرًا مِّنَ الْقَوْلِ وَزُوْرًا وَإِنَّ اللهَ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌ (۲) وَالَّذِيْنَ يُظٰهِرُوْنَ مِن نِّسَائِهِمْ ثُمَّ يَعُوْدُوْنَ لِمَا قَالُوْا فَتَحْرِيْرُ رَقَبَةٍ مِّنْ قَبْلِ أَن يَّتَمَاسَّا ذٰلِكُمْ تُوْعَظُوْنَ بِهِ وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ (٣) فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَتَمَاسَّا فَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَإِطْعَامُ سِتِّينَ مِسْكِينًا ذَلِكَ لِتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ (٤)۔ (سورۃ المجادلۃ، آیت : ۲،۳،۴)

ترجمہ : تم میں سے جو لوگ اپنی بیبیوں سے ظہار کر بیٹھے (مثلاً یوں کہہ دیتے ہیں کہ تومیری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے مجھ پر) وہ ان کی مائیں نہیں ہیں۔ ان کی مائیں تو بس وہی ہیں جنہوں نے ان کو جنا ہے اور وہ لوگ بلاشبہ ایک نامعقول اور (چونکہ) جھوٹ بات کہتے ہیں  (اس لئے گناہ ضرور ہوگا) اور یقیناً الله تعالیٰ معاف کرنے والے بخش دینے والے ہیں۔ اور جولوگ اپنی بیبیوں سے ظہار کرتے ہیں پھر اپنی کہی ہوئی بات کی تلافی کرنا چاہتے ہیں تو ان کے ذمے ایک غلام یا لونڈی کا آزاد کرنا ہے قبل اس کے کہ دونوں (میاں  بی بی) باہم اختلاط کریں ۔ اس سے تم کو نصیحت کی جاتی ہے اورالله تعالیٰ کوتمہارے سب اعمال کی پوری خبر ہے۔ پھر جس کو (غلام، لونڈی) میسر نہ ہو تو اس کے ذمے لگاتار دو مہینے روزے ہیں قبل اس کے کہ دونوں باہم اختلاط کریں پھر جس سے یہ بھی نہ ہوسکے تو اس کے ذمہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے۔ یہ حکم اس لئے (بیان کیا گیا ہے) کہ الله اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ اور یہ الله کی حدیں (باندھی ہوئی) ہیں اور کافروں کے لئے سخت دردناک عذاب ہوگا۔ (بیان القرآن، ص : ۶۴۹)

شریعت کی اصطلاح میں ظہار کی تعریف یہ ہے کہ اپنی بیوی کو اپنی محرماتِ ابدیہ ماں، بہن، بیٹی وغیرہ کے کسی ایسے عضو سے تشبیہ دینا جس کو دیکھنا اس کے لئے جائز نہیں، ماں کی پشت بھی اس کی ایک مثال ہے۔ یہ زمانہ جاہلیت کی ایک رسم تھی، جس کی وجہ سے دائمی حرمت شمار کی جاتی تھی۔

شریعت اسلامیہ نے اس رسم کی اصلاح دو طرح فرمائی۔

اوّل تو خود اس رسمِ ظہار کو ناجائز وگناہ قرار دیا، کہ جس کو بیوی سے علیحدگی اختیار کرنا ہے اس کا طریقہ طلاق ہے، اس کو اختیار کرے۔ ظہار کو اس کام کیلئے استعمال نہ کرے کیونکہ یہ ایک لغو اور جھوٹا کلام ہے کہ بیوی کو ماں کہہ دیا۔ قرآن کریم نے فرمایا :
" مَا هُنَّ أُمَّهَاتِهِمْ إِنْ أُمَّهَاتُهُمْ إِلَّا اللَّائِيْ وَلَدْنَهُمْ"
یعنی ان کے اس بیہودہ کلام کی وجہ سے بیوی ماں نہیں بن جاتی، ماں تو وہی ہے جس کے بطن سے پیدا ہوا ہے۔ پھر فرمایا :
"وَإِنَّهُمْ لَيَقُوْلُوْنَ مُنْكَرًا مِّنَ الْقَوْلِ وَزُوْرًا"
یعنی ان کا یہ قول جھوٹ بھی ہے کہ خلاف واقع بیوی کو ماں کہہ رہا ہے اور منکر یعنی گناہ بھی ہے۔

دوسری اصلاح یہ فرمائی کہ اگر کوئی ناواقف جاہل یا احکام دین سے غافل آدمی ایسا کر بیٹھے تو اس لفظ سے حرمت ابدی شریعتِ اسلام میں نہیں ہوتی، لیکن اس کو کھلی چھٹی بھی نہیں دی جاتی کہ ایسا لفظ کہنے کے بعد پھر بیوی سے پہلے کی طرح اختلاط وانتفاع کرتا رہے، بلکہ اس پر ایک جرمانہ کفارہ کا لگایا گیا، کہ اگر پھر یہ اپنی بیوی سے رجوع کرنا چاہتا ہے اور سابق کی طرح بیوی سے انتفاع چاہتا ہے تو کفارہ ادا کرکے اپنے اس گناہ کی تلافی کرے بغیر کفارہ ادا کئے بیوی حلال نہ ہوگی جیسا کہ باری تعالیٰ کے اس فرمان سے ثابت ہوتا ہے :
"وَالَّذِيْنَ يُظٰهِرُوْنَ مِن نِّسَائِهِمْ ثُمَّ يَعُوْدُوْنَ لِمَا قَالُوْا فَتَحْرِيْرُ رَقَبَةٍ مِّنْ قَبْلِ أَن يَّتَمَاسَّا ۔۔۔ الآیۃ "

اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کفارہ کا وجوب بیوی کے ساتھ اختلاط حلال ہونے کی غرض سے ہے کہ اس کے بغیر حلال نہیں، خود ظہار اس کفارہ کی علت نہیں، بلکہ ظہار کرنا ایک گناہ ہے جس کا کفارہ توبہ واستغفار ہے جس کی طرف آیت کے آخر میں "وَإِنَّ اللهَ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌ" سے اشارہ کردیا گیا ہے، لہٰذا اگر کوئی شخص ظہار کر بیٹھے اور اب بیوی سے اختلاط نہیں رکھنا چاہتا تو کوئی کفارہ لازم نہیں۔ البتہ بیوی کی حق تلفی ناجائز ہے، اگر وہ مطالبہ کرے تو کفارہ ادا کرکے اختلاط کرنا یا پھرطلاق دے کر آزاد کرنا ہوگا۔

اگر کوئی اپنی بیوی کو ماں، بہن یا محرمات ابدیہ میں سے کسی سے تشبیہ دے یعنی اپنی بیوی کو کہے تو میری ماں کی طرح ہے تو اس صورت میں نیت کا اعتبار کیا جائے گا۔ اگر ان الفاظ سے شوہر کا ارادہ ظہار کا تھا تو ظہار ہوگا اگر ان الفاظ سے طلاق کا ارادہ تھا تو طلاق بائنہ واقع ہوگی، اگر ان الفاظ سے نیت صرف عزت وتکریم کی تھی تو عزت وتکریم ہی مراد ہوگی اور اگر اس نے ان الفاظ سے کسی بھی قسم کی نیت نہیں کی تو اس کا یہ کلام لغو ہوجائے گا، لیکن اگر زوجین کے درمیان بحث جھگڑا یا طلاق دینے کی بات چل رہی ہو تو پھر تعظیم والی نیت کا اعتبار نہیں ہوگا بلکہ ظہار ہی ہوگا، نیز ظہار صرف اپنی بیوی سے ہی ہوسکتا ہے۔ لہٰذا اگرکوئی اپنی محرمات سے ظہار کرے یا اجنبیات سے تو ظہار نہیں ہوگا۔

هُوَ لُغَةً مَصْدَرُ ظَاهَرَ مِنْ امْرَأَتِهِ : إذَا قَالَ لَهَا أَنْتِ عَلَيَّ كَظَهْرِ أُمِّي. وَشَرْعًا (تَشْبِيهُ الْمُسْلِمِ) فَلَا ظِهَارَ لِذِمِّيٍّ عِنْدَنَا (زَوْجَتَهُ) وَلَوْ كِتَابِيَّةً، أَوْ صَغِيرَةً، أَوْ مَجْنُونَةً۔ (شامی : ٣/٤٦٥)

(وَإِنْ نَوَى بِأَنْتِ عَلَيَّ مِثْلُ أُمِّي) ، أَوْ كَأُمِّي، وَكَذَا لَوْ حَذَفَ عَلَيَّ خَانِيَّةٌ (بِرًّا، أَوْ ظِهَارًا، أَوْ طَلَاقًا صَحَّتْ نِيَّتُهُ) وَوَقَعَ مَا نَوَاهُ لِأَنَّهُ كِنَايَةٌ (وَإِلَّا) يَنْوِ شَيْئًا، أَوْ حَذَفَ الْكَافَ (لَغَا) وَتَعَيَّنَ الْأَدْنَى أَيْ الْبِرُّ، يَعْنِي الْكَرَامَةَ. وَيُكْرَهُ قَوْلُهُ أَنْتِ أُمِّي وَيَا ابْنَتِي وَيَا أُخْتِي وَنَحْوَهُ۔

قَوْلُهُ : لِأَنَّهُ كِنَايَةٌ) أَيْ مِنْ كِنَايَاتِ الظِّهَارِ وَالطَّلَاقِ. قَالَ فِي الْبَحْرِ: وَإِذَا نَوَى بِهِ الطَّلَاقَ كَانَ بَائِنًا كَلَفْظِ الْحَرَامِ..... وَقَالَ الْخَيْرُ الرَّمْلِيُّ : وَكَذَا لَوْ نَوَى الْحُرْمَةَ الْمُجَرَّدَةَ يَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ ظِهَارًا، وَيَنْبَغِي أَنْ لَا يُصَدَّقَ قَضَاءً فِي إرَادَةِ الْبِرِّ إذَا كَانَ فِي حَالِ الْمُشَاجَرَةِ وَذِكْرِ الطَّلَاقِ ....قُلْت : يَنْبَغِي أَنْ لَا يُصَدَّقَ، لِأَنَّ دَلَالَةَ الْحَالِ قَرِينَةٌ ظَاهِرَةٌ تُقَدَّمُ عَلَى النِّيَّةِ فِي بَابِ الْكِنَايَاتِ فَلَا يُصَدَّقُ فِي نِيَّةِ الْأَدْنَى لِأَنَّ فِيهِ تَخْفِيفًا عَلَيْهِ تَأَمَّلْ۔ (شامی : ٣/٤٧٠)
مستفاد : نجم الفتاوی : ٦/٣١٦)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
14 محرم الحرام 1445

3 تبصرے: