ہفتہ، 12 اگست، 2023

پورا مال مسجد مدرسہ کے لیے وصیت کرنا


سوال :

مفتی صاحب ! ہندہ کے شوہر کے انتقال کے بعد ہندہ نے وصیت کی کہ میرے مرنے کے بعد ساری جائداد مسجد یا مدرسہ کے لیے وقف کردیا جائے، جب کہ ہندہ کے کل پانچ لڑکے ہیں کیا وارثین کو محروم رکھتے ہوئے ساری جائداد مسجد یا مدرسہ میں دے دی جائے؟ کیا اس طرح وصیت کرنا درست ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : حافظ سفیان، مالیگاؤں)
---------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : آدمی اپنی زندگی اور صحت میں اپنے مال کا پوری طرح مالک ومتصرف ہوتا ہے، اگر وہ اُس وقت اپنا مال کسی کو دے کر اُسے مالک بنادے تو یہ عطیہ اور ہبہ شرعاً مکمل نافذ ہوجاتا ہے، اور اس میں کسی دوسرے سے اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لیکن مرنے کے بعد میت کے مال میں دیگر وارثین کا حق متعلق ہوجاتا ہے، اِس لئے وصیت کے بارے میں شریعتِ مطہرہ کا یہ واضح حکم ہے کہ کسی متعین وارث کے لئے وصیت معتبر نہیں ہے، تاکہ دوسرے وارثین کی حق تلفی نہ ہو، دوسرے یہ کہ اگر فی سبیل اللہ وقف کی وصیت ہو یا اَجنبی کے لئے وصیت ہو، تو وہ صرف تہائی مال میں نافذ ہوتی ہے، اُس سے زیادہ میں نہیں، ہاں اگر وارثین اپنا حق چھوڑدیں، تو زیادہ میں وصیت نافذ ہوجاتی ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں ہندہ کا یہ عمل شرعاً درست نہیں ہے، اگر اس کے باوجود انہوں نے یہ وصیت کردی تو ان کی وصیت ان کے تہائی (one third) مال پر ہی نافذ ہوگی یعنی ان کے کُل مال کا تہائی حصہ ہی مسجد مدرسہ میں دیا جائے گا، بقیہ حصہ وارثین میں حسبِ شرع تقسیم ہوگا، ہاں اگر وارثین برضا ورغبت اپنا حصہ چھوڑ دیں تو پھر تہائی مال سے زائد میں وصیت نافذ ہوگی۔

عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ : مَرِضَ مَرَضًا. قَالَ ابْنُ أَبِي خَلَفٍ : بِمَكَّةَ. ثُمَّ اتَّفَقَا : أَشْفَى فِيهِ، فَعَادَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِي مَالًا كَثِيرًا، وَلَيْسَ يَرِثُنِي إِلَّا ابْنَتِي، أَفَأَتَصَدَّقُ بِالثُّلُثَيْنِ ؟ قَالَ : " لَا ". قَالَ : فَبِالشَّطْرِ ؟ قَالَ : " لَا ". قَالَ : فَبِالثُّلُثِ ؟ قَالَ : " الثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ، إِنَّكَ أَنْ تَتْرُكَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَدَعَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ۔ (سنن ابی داؤد، رقم : ٢٨٦٤)

ولا تجوز بما زاد علی الثلث، لقول النبي علیہ السلام في حدیث سعد بن أبي وقاص رضي اللّٰہ عنہ: الثلث، والثلث کثیر، بعد ما نفی وصیتہ بالکل والنصف ولأنہ حق الورثۃ۔ (الہدایۃ، کتاب الوصایا / باب في صفۃ الوصیۃ ما یجوز من ذٰلک وما یستحب منہ ۴؍۶۳۹ إدارۃ المعارف دیوبند)

(وَتَجُوزُ بِالثُّلُثِ لِلْأَجْنَبِيِّ) عِنْدَ عَدَمِ الْمَانِعِ (وَإِنْ لَمْ يُجِزْ الْوَارِثُ ذَلِكَ لَا الزِّيَادَةَ عَلَيْهِ إلَّا أَنْ تُجِيزَ وَرَثَتُهُ بَعْدَ مَوْتِهِ) وَلَا تُعْتَبَرُ إجَازَتُهُمْ حَالَ حَيَاتِهِ أَصْلًا بَلْ بَعْدَ وَفَاتِهِ (وَهُمْ كِبَارٌ)۔ (شامی : ٦/٦٥٠)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
24 محرم الحرام 1445

3 تبصرے: