منگل، 29 اگست، 2023

مشترکہ خاندانی نظام سے متعلق چند اہم سوالات

سوال :

مفتی صاحب ! ہمارے معاشرے میں زیادہ تر افراد مشترکہ خاندانی نظام کے تحت ایک گھر میں رہتے ہیں ،ایک ساتھ کاروبار کرتے ہیں ،کھانے کپڑے سے لے کر شادی بیاہ تک، اسی طرح علاج ومعالجے، تعلیمی خرچ اور گھر کی تعمیر وتوسیع سمیت گھر کے تمام افراد کی چھوٹی بڑی ضروریات مشترکہ کاروبار کے ذریعہ ہونے والی آمدنی سے پوری ہوتی ہیں۔ گھر کا سربراہ باپ ہوتا ہے اور وہی کاروبار کا مالک ہوتا ہے، پھر آہستہ آہستہ بیٹے اس کاروبار میں شریک ہوتے جاتے ہیں، اس طرح دن بدن کاروبار میں ترقی ہوتی ہے اور افراد خانہ میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ بعض بیٹے کاروبار میں باپ کا ہاتھ بٹاتے ہیں ،اور بعض تعلیم حاصل کررہے ہوتے ہیں ،ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض بیٹے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے کہیں ملازمت اختیار کرلیتے ہیں۔ البتہ سب اپنی آمدنی باپ کے پاس جمع کرتے ہیں جس کے ذریعہ باپ گھر کے سارے اخراجات پورے کرتا ہے اور اپنے بیٹوں کو جیب خرچ کے طور پر ایک مناسب رقم بھی دیتا ہے۔
ایک طویل عرصہ تک باپ اور بیٹوں کے درمیان کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا، البتہ جب بیٹے بڑے ہوجاتے ہیں اور نکاح کے بعد خود صاحب اولاد ہوجاتے ہیں تب ان کی ضروریات کا دائرہ بڑھنا شروع ہوتا ہے اور پھر کبھی گھر میں جگہ کی تنگی محسوس ہوتی ہے تو کبھی مشترکہ کاروبار کے ذریعہ ہونے والی آمدنی ناکافی لگتی ہے، اسی کے ساتھ ساتھ بیٹوں کے ذہن میں مختلف طرح کے سوالات گردش کرنے لگتے ہیں، مثلاً

۱) کاروبار تو اصلاً باپ کی ملکیت ہے، لیکن ہم نے کاروبار میں برسوں جو محنت کی ہے اور اس کو آگے بڑھایا ہے تو کاروبار میں ہمارا کتنا حصہ ہے؟

۲) کاروبار میں بعض بیٹے پوری محنت کرتے ہیں اور بعض علاحدہ طور پر ملازمت کرتے ہیں، تو کیا باپ کے وصال کے بعد پورا کاروبار مال وراثت شمار ہوگا اور سب لوگ اس میں برابر کے شریک ہوں گے؟

۳) کسی بیٹے کی فیملی چھوٹی ہوتی ہے اور کسی کی بڑی،اس طرح کسی کے اخراجات کم ہوتے ہیں اور کسی کے زیادہ ،کسی کے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہوتے ہیں تو کسی کے بچے تعلیم حاصل کرنے میں پیچھے رہ جاتے ہیں، کسی کے بچوں کی شادی مشترکہ خرچ سے ہوچکی ہوتی ہے اور کسی کے بچوں کی شادی کا مرحلہ باقی رہتا ہے، بعض بیٹے اور بیٹیاں مشترکہ کاروبار سے حج وعمرہ کی سعادت حاصل کرلیتے ہیں اور بعض بیٹے اور بیٹیاں کسی وجہ سے محروم رہتے ہیں۔

مذکورہ تمام باتوں کو لے کر بھی مختلف طرح کے سوالات اور الجھنیں پیدا ہوتی ہیں۔ اسی دوران باپ کا اگر انتقال ہوجائے تو میراث کو لے کر بھی طرح طرح کے مسائل ہوتے ہیں، مثلاً جو بیٹے شروع سے کاروبار میں شریک ہوکر محنت کررہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ ان کو برسوں کی محنت کے صلے کے طور پر میراث میں سے بڑھا کر مال دیا جائے، لیکن دوسرے بیٹے اور بیٹیاں (جن کا کاروبار کی محنت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا) وہ چاہتے ہیں کہ میراث میں سے سب کو برابر برابر حصہ ملے۔ اس آپسی رسہ کشی میں سالوں گزر جاتے ہیں لیکن میراث تقسیم نہیں ہوپاتی۔ سوال یہ ہے کہ اس مسئلے کا شرعی حل کیا ہے؟
ایک اہم سوال :
باپ کے انتقال کے بعد ایسا بھی ہوتا ہے کہ کاروبار پر قابض بیٹے کاروبار کو چلاتے رہتے ہیں یہاں تک کہ سالوں گزر جاتے ہیں،کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کاروبار میں نقصان ہوجاتا ہے اور عموماً کاروبار میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ جب شرعی طور پر کاروبار کی تقسیم کا موقع آتا ہے تو نفع کی صورت میں دیگر وارثین یہ چاہتے ہیں کہ پورا کاروبار نفع سمیت سارے وارثین میں برابر برابر تقسیم کردیا جائے، لیکن اگر کاروبار میں نقصان ہوگیا ہو تو دیگر وارثین کا مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ جن بیٹوں نے کاروبار چلایا ہے وہ اپنے حصے سے نقصان کی بھرپائی کریں، اس اختلاف کی وجہ سے بھی کاروبار کی شرعی طور پر تقسیم نہیں ہوپاتی۔ سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟
(المستفتی : خلیل احمد، نیا اسلام پورہ، مالیگاؤں)
---------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور تمام مسائل مشترکہ خاندانی نظام کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں، مشترکہ خاندانی نظام اگرچہ شرعاً ناجائز نہیں ہے، لیکن موجودہ دور میں اس کے بڑے نقصانات سامنے آرہے ہیں اگرچہ کسی وقت یہ نظام لوگوں کے لیے مفید ثابت ہوتا ہوگا، لیکن آج کے دور میں جہاں اکثر اخلاقی قدریں زوال پذیر ہورہی ہیں، ان میں باہم اشتراک کے ساتھ ان بلند مقاصد کا حصول مشکل ہوگیا ہے، عموماً ایک ساتھ رہنے کے نتیجے میں باہم اختلاف بڑھتا ہے، بے پردگی کا اندیشہ ہوتا ہے، رشتوں کا توازن بگڑتا ہے، نزدیکیاں دوریوں میں بدلتی ہیں، باہم مخلصانہ جذبات کمزور پڑنے لگتے ہیں، تعاون کے بجائے ضرر کا جذبہ ابھرنے لگتا ہے، حق تلفیاں عام ہوجاتی ہیں، بزرگوں کا احترام بے کیفی اور بدمزگی میں بدل جاتا ہے، سب مل کر آگے بڑھنے کے بجائے ایک دوسرے کو پچھاڑنے اور نیچا دکھانے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور اس ضمن میں اکثر جانی ومالی زیادتیاں بھی ہوتی ہیں، چنانچہ ایسے حالات میں مشترکہ خاندانی نظام کی تائید اور ترغیب نہیں دی جاسکتی بلکہ اس سے بچنے میں ہی عافیت نظر آتی ہے، بالخصوص ہمارے اپنے شہر مالیگاؤں میں (جہاں چھوٹے چھوٹے مکانات ہوتے ہیں) تو اس کی بالکل بھی حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی۔ لہٰذا گھر کے سربراہ کو سب سے پہلے یہی کوشش کرنا چاہیے کہ وہ مشترکہ خاندانی نظام کو ختم کرکے جداگانہ خاندانی نظام کے تحت معاملات طے کریں، یعنی بچوں کی شادیاں کرنے کے بعد استطاعت ہوتو خود ہی ان کے لیے الگ کاروبار اور الگ رہائش کا نظم کردیں، اگر استطاعت نہ ہوتو بچوں کو خود سے کوشش کرکے علحدہ رہائش اور کاروبار یا ملازمت کا نظم کرلینا چاہیے۔ لیکن اس کا یہ مطلب بالکل نہیں ہے کہ اب والدین تنہا رہیں گے اور اپنی ضروریات خود پوری کریں گے، بلکہ یہ ان کی صواب دید پر ہوگا کہ وہ جب، جتنا چاہیں کسی بھی بیٹے کے یہاں رہیں یا پھر وہ چاہیں تو تنہا رہیں، البتہ ان کی خدمت کرنا اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنا بچوں پر بہرحال واجب ہے۔

١) اصولی بات یہی ہے کہ مشترکہ کاروبار میں صرف محنت کی زیادتی کی وجہ سے کوئی شریک مکمل کاروبار یا زیادہ حصے کا حق دار نہیں ٹھہرتا۔ لہٰذا جتنا دیگر بھائیوں کو ملے گا اتنا ہی آپ کو بھی ملے گا۔

اس طرح کے مسائل کا حل یہ ہے کہ والد کو اپنی حیات میں ہی اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ جب بعض بیٹوں کی پڑھائی اور ملازمت پر خطیر رقم خرچ کی جاتی ہے تو دیگر بیٹے جو کاروبار سنبھالتے ہیں انہیں بھی اتنا مال دے کر انہیں اس کا مالک بنا دیا جائے، پھر وہ اس مال سے جو کاروبار کریں گے یہ ان کا اپنا مال ہوگا۔ دیگر بھائیوں کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ اس صورت میں نا انصافی کا پہلو بھی باقی نہیں رہے گا اور بعد میں جو تنازعہ اور اختلاف پیدا ہوتا ہے اس سے بھی حفاظت رہے گی۔

٢) اگر یہ کاروبار باپ کا لگایا ہوا ہے تو بلاشبہ اس میں تمام بیٹے بیٹیاں شریک ہوں گے خواہ وہ الگ کہیں ملازمت کیوں نہ کرتے ہوں۔ تاہم بہتر یہ ہے کہ آپس کی رضامندی سے کاروبار سنبھالنے والے اور اسے محنت سے آگے بڑھانے والے بھائیوں کی دلجوئی کے لیے ان کو کچھ اضافی حصہ دے دیا جائے۔

٣) جب کاروبار مشترکہ ہے تو جس طرح نفع میں تمام وارثین شریک ہوں گے اسی طرح نقصان میں بھی شریک ہوں گے، البتہ اگر کاروبار کرنے والے بھائی کی اس میں صریح غلطی اور بالکل واضح غفلت ہوتو پھر وہی اپنے ذاتی مال سے نقصان کی بھرپائی کرے گا۔ لہٰذا جب کاروبار سنبھالنے والے کی غلطی نہ ہو بلکہ مندی وغیرہ کی وجہ سے نقصان ہوجائے جیسا کہ عموماً اسی وجہ سے نقصان ہوتا ہے تو اس میں تمام وارثین شریک ہوں گے، نقصان کا بار صرف کاروبار کرنے والے بھائی پر نہیں ڈالا جائے گا۔

مَطْلَبٌ: اجْتَمَعَا فِي دَارٍ وَاحِدَةٍ وَاكْتَسَبَا وَلَا يُعْلَمُ التَّفَاوُتُ فَهُوَ بَيْنَهُمَا بِالسَّوِيَّةِ [تَنْبِيهٌ] يُؤْخَذُ مِنْ هَذَا مَا أَفْتَى بِهِ فِي الْخَيْرِيَّةِ فِي زَوْجِ امْرَأَةٍ وَابْنِهَا اجْتَمَعَا فِي دَارٍ وَاحِدَةٍ وَأَخَذَ كُلٌّ مِنْهُمَا يَكْتَسِبُ عَلَى حِدَةٍ وَيَجْمَعَانِ كَسْبَهُمَا وَلَا يُعْلَمُ التَّفَاوُتُ وَلَا التَّسَاوِي وَلَا التَّمْيِيزُ.

فَأَجَابَ بِأَنَّهُ بَيْنَهُمَا سَوِيَّةً، وَكَذَا لَوْ اجْتَمَعَ إخْوَةٌ يَعْمَلُونَ فِي تَرِكَةِ أَبِيهِمْ وَنَمَا الْمَالُ فَهُوَ بَيْنَهُمْ سَوِيَّةً، وَلَوْ اخْتَلَفُوا فِي الْعَمَلِ وَالرَّأْيِ اهـ۔ (شامی : ٤/٣٢٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
12 صفر المظفر 1445

3 تبصرے:

  1. انصاری محمود30 اگست، 2023 کو 3:07 PM

    ماشاء اللہ بہت بہترین جواب ارسال فرمایا آپ نے مفتی صاحب
    جزاکم اللہ خیرا و احسن

    جواب دیںحذف کریں
  2. Masha allah
    Itminan bakhsh jawab

    جواب دیںحذف کریں