عذابِ قبر روح یا جسم کو؟
سوال :
مفتی صاحب جیسا کہ ہمارا ایمان ہے کہ میت کو دفنانے کے بعد جب سب اپنے گھروں کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں اسکے بعد قبر میں روح کو میت کے جسم میں واپس ڈال دیا جاتا ہے سوال و جواب کے بعد جیسے اعمال ہوتا ویسے فیصلے ہوتے نیک لوگوں کیلئے جنت کی کھڑکیاں کھول دی جاتی ہے اور بد اعمال لوگوں کیلئے قبر کا عزاب مسلط ہوجاتا ہے۔
مفتی صاحب میرا آپ سے سوال ہے کہ بداعمالیوں کی وجہ سے جو عذاب قبر میں ہوتا ہے وہ میت کے جسم پہ ہوتا ہے یا روح پر ہوتا ہے؟
(المستفتی : محمد مصطفی، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کفار ومشرکین اور بعض گناہ گاروں کو قبر میں عذاب ہوگا یہ بات قرآن وحدیث سے ثابت ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
اَلنَّارُیُعْرَضُوْنَ عَلَیْها غُدُوًّا وَّعَشِیًّا وَّیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوْا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَاب۔ (سورۃ المؤمن : ٤٦)
ترجمہ : وہ لوگ (برزخ میں) صبح اور شام آگ کے سامنے لائے جاتے ہیں، اور جس روز قیامت قائم ہوگی (حکم ہوگا) فرعون والوں کو (مع فرعون کے) نہایت سخت آگ میں داخل کرو۔
اس آیت میں فرعون اور اس کے متبعین کا عالمِ برزخ میں عذاب میں مبتلا ہونا صراحتًا مذکور ہے۔
سورۃ المومنون میں ہے :
حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ (99)لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ ۚ كَلَّا ۚ إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا ۖ وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ(100)فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ فَلَا أَنسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَئِذٍ وَلَا يَتَسَاءَلُونَ(101)
ترجمہ : یہاں تک کہ جب پہنچے ان میں کسی کو موت، کہے گا: اے رب مجھ کو پھر بھیج دو، شاید کچھ میں بھلا کام کرلوں اس میں جو پیچھے چھوڑ آیا، ہرگز نہیں، یہ ایک بات ہے کہ وہی کہتاہے، اور ان کے پیچھے پردہ ہے، اس دن تک کہ اٹھائے جائیں، پھر جب پھونک ماریں صور میں تو نہ قرابتیں ہیں ان میں اس دن اور نہ ایک دوسرے کو پوچھے۔
متعدد احادیث میں عذاب قبر کا ذکر آیا ہے، یہاں ہم بخاری ومسلم کی ایک روایت ذکر کرتے ہیں :
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک یہودی عورت ان کے پاس آئی، اور اس نے عذابِ قبر کا ذکر کرتے ہوئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو دعا دی : "اللہ تعالیٰ آپ کو عذابِ قبر سے بچائے"، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ ﷺ سے اس بابت سوال کیا (کہ کیا واقعی عذابِ قبر ہوتاہے؟) تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جی ہاں! عذابِ قبر حق ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس کے بعد میں نے رسول اللہ ﷺ کو ہمیشہ دیکھا کہ ہر نماز میں عذابِ قبر سے پناہ مانگتے تھے۔ (بخاری و مسلم)
معلوم ہونا چاہیے کہ جن احادیث میں عذاب قبر کا ذکر آیا ہے وہ تواتر کے درجہ کو پہنچی ہوئی ہیں، لہٰذا ان پر ایمان رکھنا ضروری ہے اور اس کا انکار صریح جہالت اور کفر ہے۔
دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
عذاب قبر برحق ہے، قرآن کریم کی متعدد آیات اور احادیث کثیرہ اس بارے میں وارد ہیں، محض عقلی شبہات کی بنا پر ایسے امور کو رد کرنا صحیح نہیں۔ عذاب قبر سے مراد یہ ہے کہ روح میت میں لوٹائی جاتی ہے خواہ علیین میں ہو یا سجین میں ہو، پھر اس کا ایک خاص تعلق بدن سے قائم کردیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے بدن کو ثواب یا عذاب کا احساس ہوتا ہے، مگر یہ معاملہ عالم غیب کا ہے اس لیے ہمیں میت کے احساس کا عام طور سے شعور نہیں ہوتا، عالم غیب کی جو باتیں ہمیں حضور صلی اللہ عیہ وسلم نے بتائی ہیں، ہمیں ان پر ایمان لانا چاہیے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ تم مُردوں کو دفن کرنا چھوڑدوگے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا کہ تم کو بھی عذاب قبر سنادے جو میں سنتا ہوں۔ (رقم الفتوی : 12461
جمہور علماء اہل سنت والجماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ قبر وبرزخ میں راحت وعذاب جسم اور روح دونوں کو ہوتا ہے، موت کے بعد روح کا جسم کے ساتھ ایک خاص قسم کا تعلق قائم کردیا جاتا ہے جس سے وہ منکر نکیر کے سوالات کے جوابات بھی دیتے ہیں، اور یہاں ملنے والی نعمتیں اور عذاب محسوس کرتے ہیں، لیکن یہ ایک ایسی چیز ہے جو انسانی آنکھوں سے نظر نہیں آسکتی اور ہم اس کی کیفیات جاننے کا مکلف بھی نہیں ہیں، لہٰذا ہم پر ضروری ہے کہ ہم اس پر بغیر کسی شک و شبہ کے مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر پر ایمان ویقین رکھیں اور عقائد کے باب میں عقلی گھوڑے دوڑانے سے مکمل طور پر اجتناب کریں۔
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ يَهُودِيَّةً دَخَلَتْ عَلَيْهَا، فَذَكَرَتْ عَذَابَ الْقَبْرِ، فَقَالَتْ لَهَا : أَعَاذَكِ اللَّهُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، فَسَأَلَتْ عَائِشَةُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، فَقَالَ : " نَعَمْ، عَذَابُ الْقَبْرِ ". قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا : فَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدُ صَلَّى صَلَاةً إِلَّا تَعَوَّذَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ. زَادَ غُنْدَرٌ : عَذَابُ الْقَبْرِ حَقٌّ۔ (صحیح البخاری، رقم : ١٣٧٢)
وسؤال مُنكر وَنَكِير حق كَائِن فِي الْقَبْر وإعادة الرّوح إِلَى الْجَسَد فِي قَبره حق وضغطة الْقَبْر وعذابه حق كَائِن للْكفَّار كلهم ولبعض عصاة الْمُؤمنِينَ حق جَائِز۔ (الفقہ الاکبر : ٦٥)
قَالَ الْإِمَامُ النَّوَوِيُّ: مَذْهَبُ أَهْلِ السُّنَّةِ إِثْبَاتُ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَقَدْ تَظَاهَرَتْ عَلَيْهِ الْأَدِلَّةُ مِنَ الْكِتَابِ وَالسَّنَةِ. قَالَ تَعَالَى: ﴿النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ﴾ [غافر: ٤٦] وَأَمَّا الْأَحَادِيثُ فَلَا تُحْصَى كَثْرَةً، وَلَا مَانِعَ فِي الْعَقْلِ مِنْ أَنْ يُعِيدَ اللَّهُ الْحَيَاةَ فِي جُزْءٍ مِنَ الْجَسَدِ، أَوْ فِي الْجَمِيعِ عَلَى خِلَافٍ بَيْنِ الْأَصْحَابِ فَيُثِيبَهُ وَيُعَذِّبَهُ، وَلَا يَمْنَعُ مِنْ ذَلِكَ كَوْنُ الْمَيِّتِ قَدْ تَفَرَّقَتْ أَجْزَاؤُهُ كَمَا يُشَاهَدُ فِي الْعَادَةِ، أَوْ أَكْلَتْهُ السِّبَاعُ وَالطُّيُورُ وَحِيتَانُ الْبَحْرِ لِشُمُولِ عِلْمِ اللَّهِ تَعَالَى وَقُدْرَتِهِ. فَإِنْ قِيلَ: نَحْنُ نُشَاهِدُ الْمَيِّتَ عَلَى حَالِهِ فَكَيْفَ يُسْأَلُ وَيُقْعَدُ وَيُضْرَبُ وَلَا يَظْهَرُ أَثَرٌ؟ فَالْجَوَابُ: أَنَّهُ مُمْكِنٌ وَلَهُ نَظِيرٌ فِي الشَّاهِدِ وَهُوَ النَّائِمُ فَإِنَّهُ يَجِدُ لَذَّةً وَأَلَمًا يُحِسُّهُ وَلَا نُحِسُّهُ، وَكَذَا يَجِدُ الْيَقْظَانُ لَذَّةً وَأَلَمًا يَسْمَعُهُ وَيَتَفَكَّرُ فِيهِ وَلَا يُشَاهِدُ ذَلِكَ جَلِيسُهُ، وَكَذَلِكَ كَانَ جِبْرِيلُ يَأْتِي النَّبِيَّ ﷺ فَيُوحِي بِالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ وَلَا يَرَاهُ أَصْحَابُهُ۔ (مرقاۃ المفاتيح : ١/٢٠٢)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
29 ذی الحجہ 1446
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں