حضرت دحیہ کلبی کا اپنی بیٹی کو زندہ درگور کرنے کے واقعہ کی تحقیق

سوال :

مفتی صاحب ! درج ذیل واقعہ کی تحقیق مطلوب ہے، اور کیا اس کو آگے بھیج سکتے ہیں؟ رہنمائی فرمائیں۔ 

حضرت *دحیہ قلبی* رضی اللہ عنہ نہایت خوبصورت تھے۔ تفسیر نگار لکھتے ہیں کہ آپ کا حسن اس قدر تھا کہ عرب کی عورتیں دروازوں کے پیچھے کھڑے ہوکر یعنی چھپ کر حضرت دحیہ قلبی رضی اللہ عنہ کو دیکھا کرتی تھیں۔ لیکن اس وقت آپ مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ ایک دن سرورِ کونین تاجدارِ مدینہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر حضرت دحیہ قلبی پر پڑی۔
آپؐ نے حضرت دحیہ قلبی کے چہرہ کو دیکھا کہ اتنا حسین نوجوان ہے۔ آپ نے رات کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا مانگی؛ *"یا اللہ اتنا خوبصورت نوجوان بنایا ہے، اس کے دل میں اسلام کی محبت ڈال دے، اسے مسلمان کردے، اتنے حسین نوجوان کو جہنم سے بچالے۔"*
رات کو آپ نے دعاء فرمائی، صبح حضرت دحیہ قلبی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ 
حضرت دحیہ قلبی رضی اللہ عنہ کہنے لگے؛
"اے اللہ کے رسول ! بتائیں آپؐ کیا احکام لےکر آئے ہیں؟"
آپؐ نے فرمایا میں اللہ کا رسول ہوں اور اللہ واحد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ پھر توحید و رسالت کے بارے میں حضرت دحیہ قلبی کو بتایا۔
 حضرت دحیہ نے کہا؛
"اللہ کے نبی میں مسلمان تو ہوجاؤں لیکن ایک بات کا ہر وقت ڈر لگا رہتا ہے ایک گناہ میں نے ایسا کیا ہے کہ آپ کا اللہ مجھے کبھی معاف نہیں کرے گا۔
 
آپؐ نے فرمایا؛ *"اے دحیہ بتا تونے کیسا گناہ کیا ہے؟"*
 تو حضرت دحیہ قلبی نے کہا؛ یا رسول اللہ میں اپنے قبیلے کا سربراہ ہوں۔ اور ہمارے ہاں بیٹیوں کی پیدائش پر انہیں زندہ دفن کیا جاتا ہے۔ میں کیونکہ قبیلے کا سردار ہوں اس لیے میں نے ستر گھروں کی بیٹیوں کو زندہ دفن کیا ہے۔ آپ کا رب مجھے کبھی معاف نہیں کرے گا۔ اسی وقت حضرت جبریل امین علیہ السلام حاضر ہوئے؛ 
*یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم،  اللہ سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ اسے کہیں اب تک جو ہوگیا وہ ہوگیا اس کے بعد ایسا گناہ کبھی نہ کرنا۔ ہم نے معاف کر دیا ۔*

حضرت دحیہ آپ کی زبان سے یہ بات سن کر رونے لگے۔
 آپؐ نے فرمایا *"دحیہ اب کیا ہوا ہے؟ کیوں روتے ہو ؟"*
حضرت دحیہ قلبی کہنے لگے؛ یا رسول اللہ، میرا ایک گناہ اور بھی ہے جسے آپ کا رب کبھی معاف نہیں کرے گا۔
آپؐ نے فرمایا *"دحیہ کیسا گناہ ؟ بتاؤ ؟"* 
حضرت دحیہ قلب فرمانے لگے؛ یا رسول اللہ، میری بیوی حاملہ تھی اور مجھے کسی کام کی غرض سے دوسرے ملک جانا تھا۔ میں نے جاتے ہوئے بیوی کو کہا کہ اگر بیٹا ہوا تو اس کی پرورش کرنا اور اگر بیٹی ہوئی تو اسے زندہ دفن کردینا۔
دحیہ روتے جارہے ہیں اور واقعہ سناتے جارہے ہیں۔ میں واپس بہت عرصہ بعد گھر آیا تو میں نے دروازے پر دستک دی۔ اتنے میں ایک چھوٹی سی بچی نے دروازہ کھولا اور پوچھا کون؟ میں نے کہا: تم کون ہو؟ تو وہ بچی بولی؛ میں اس گھر کے مالک کی بیٹی ہوں۔ آپ کون ہیں؟
 دحیہ فرمانے لگے؛ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، میرے منہ سے نکل گیا: اگر تم بیٹی ہو اس گھر کے مالک کی تو میں مالک ہوں اس گھر کا۔
 یا رسول اللہ! میرے منہ سے یہ بات نکلنے کی دیر تھی کہ چھوٹی سی اس بچی نے میری ٹانگوں سے مجھے پکڑ لیا اور بولنے لگی؛ بابا بابا بابا بابا آپ کہاں چلے گئے تھے؟ بابا میں کتنے دنوں سے آپ کا انتظار کررہی ہوں۔
حضرت دحیہ قلبی روتے جا رہے ہیں اور فرماتے ہیں؛ اے اللہ کے نبی! میں نے بیٹی کو دھکا دیا اور جا کر بیوی سے پوچھا؛ یہ بچی کون ہے؟
بیوی رونے لگ گئی اور کہنے لگی؛ *دحیہ! یہ تمہاری بیٹی ہے۔*
 یا رسول اللہ! مجھے ذرا ترس نہ آیا۔ میں نے سوچا میں قبیلے کا سردار ہوں۔ اگر اپنی بیٹی کو دفن نہ کیا تو لوگ کہیں گے ہماری بیٹیوں کو دفن کرتا رہا اور اپنی بیٹی سے پیار کرتا ہے۔ حضرت دحیہ کی آنکھوں سے اشک زارو قطار نکلنے لگے۔ یا رسول اللہ وہ بچی بہت خوبصورت، بہت حیسن تھی۔ میرا دل کررہا تھا اسے سینے سے لگا لوں۔ پھر سوچتا تھا کہیں لوگ بعد میں یہ باتیں نہ کہیں کہ اپنی بیٹی کی باری آئی تو اسے زندہ دفن کیوں نہیں کیا؟
 میں گھر سے بیٹی کو تیار کروا کر نکلا تو بیوی نے میرے پاؤں پکڑ لیے۔ *دحیہ نہ مارنا اسے۔ دحیہ یہ تمہاری بیٹی ہے۔* 
ماں تو آخر ماں ہوتی ہے۔ میں نے بیوی کو پیچھے دھکا دیا اور بچی کو لے کر چل پڑا۔ راستے میں میری بیٹی نے کہا؛ بابا مجھے نانی کے گھر لے کر جارہے ہو؟ بابا کیا مجھے کھلونے لےکر دینے جارہے ہو؟ بابا ہم کہاں جارہے ہیں؟
 دحیہ قلبی روتے جاتے ہیں اور واقعہ سناتے جا رہے ہیں۔ یا رسول اللہ ! میں بچی کے سوالوں کاجواب ہی نہیں دیتا تھا۔ وہ پوچھتی جارہی ہے بابا کدھر چلے گئے تھے؟ کبھی میرا منہ چومتی ہے، کبھی بازو گردن کے گرد دے لیتی ہے۔ لیکن میں کچھ نہیں بولتا۔ ایک مقام پر جاکر میں نے اسے بٹھا دیا اور خود *اس کی قبر* کھودنے لگ گیا۔
آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دحیہ کی زبان سے واقعہ سنتے جارہے ہیں اور روتے جارہے ہیں۔
میری بیٹی نے جب دیکھا کہ میرا باپ دھوپ میں سخت کام کررہا ہے، تو اٹھ کر میرےپاس آئی۔ اپنے گلے میں جو چھوٹا سا دوپٹہ تھا وہ اتار کر میرے چہرے سے ریت صاف کرتے ہوئے کہتی ہے؛ *بابا دھوپ میں کیوں کام کررہے ہیں؟ چھاؤں میں آجائیں۔ بابا یہ کیوں کھود رہے ہیں اس جگہ؟ بابا گرمی ہے چھاؤں میں آ جائیں۔*
اور ساتھ ساتھ میرا پسینہ اور مٹی صاف کرتی جارہی ہے۔ لیکن مجھے ترس نہ آیا۔ آخر جب قبر کھود لی تو میری بیٹی پاس آئی۔ میں نے دھکا دے دیا۔ وہ قبر میں گر گئی اور میں ریت ڈالنے لگ گیا۔ بچی ریت میں سے روتی ہوئی اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھ میرے سامنے جوڑ کر کہنے لگی؛ *"بابا میں نہیں لیتی کھلونے۔ بابا میں نہیں جاتی نانی کے گھر۔ بابا میری شکل پسند نہیں آئی تو میں کبھی نہیں آتی آپ کے سامنے۔ بابا مجھے ایسے نہ ماریں۔"*
یا رسول اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ریت ڈالتا گیا۔ مجھے اس کی باتیں سن کر بھی ترس نہیں آیا۔ میری بیٹی پر جب مٹی مکمل ہوگئی اور اس کا سر رہ گیا تو میری بیٹی نے میری طرف سے توجہ ختم کی اور بولی؛ *"اے میرے مالک میں نے سنا ہے تیرا ایک نبی آئے گا جو بیٹیوں کو عزت دے گا۔ جو بیٹیوں کی عزت بچائے گا۔ اے اللہ وہ نبی بھیج دے بیٹیاں مر رہی ہیں۔"*
 پھر میں نے اسے ریت میں دفنا دیا۔ حضرت دحیہ قلبی رضی اللہ عنہ واقعہ سناتے ہوئے بے انتہا روئے۔ یہ واقعہ جب بتا دیا تو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اتنا رو رہے ہیں کہ آپؐ کی داڑھی مبارک آنسوؤں سے گیلی ہوگئی۔ آپؐ نے فرمایا؛ دحیہ ذرا پھر سے اپنی بیٹی کا واقعہ سناؤ۔ اس بیٹی کا واقعہ *جو مجھ محمد کے انتظار میں دنیا سے چلی گئی۔* آپؐ نے تین دفعہ یہ واقعہ سنا اور اتنا روئے کہ آپ کو دیکھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رونے لگ گئے اور کہنے لگے؛ *اے دحیہ کیوں رلاتا ہے ہمارے آقا کو؟ ہم سے برداشت نہیں ہورہا۔*
آپؐ نے حضرت دحیہ سے تین بار واقعہ سنا تو حضرت دحیہ کی رو رو کر کوئی حالت نہ رہی۔ اتنے میں حضرت جبرائیل علیہ اسلام حاضر ہوئے اور فرمایا؛ *"یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ! اللہ سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ اے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم! دحیہ کو کہہ دیں وہ اُس وقت تھا جب اس نے اللہ اور آپؐ کو نہیں مانا تھا۔ اب مجھ کو اور آپ کو اس نے مان لیا ہے تو دحیہ کا یہ گناہ بھی ہم نے معاف کر دیا ہے۔"
(المستفتی : اشفاق انجم، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور واقعہ عوام میں مشہور ہے اور سوشل میڈیا پر گردش کرتا رہتا ہے، لیکن کسی بھی حدیث کی کتاب میں یہ واقعہ موجود نہیں ہے۔

جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کا فتوی ہے :
ہمیں کافی تلاش کے باوجود ایسا واقعہ کسی مستند ماخذ میں نہیں  مل سکا۔ اگر کسی کے حوالے سے ایسا واقعہ جاہلیت کے دور میں ثابت بھی ہو تو اسلام سے پہلے کا واقعہ ہونے کی بنا پر اس کے ذکر کی ضرورت نہیں ہے۔ (فتوی نمبر : 144206201351)

معلوم ہوا کہ یہ واقعہ غیرمستند اور غیرمعتبر ہے، لہٰذا اس کا بیان کرنا اور اسے سوشل میڈیا پر شیئر کرنا درست نہیں ہے، البتہ سنن دارمی میں اسی مضمون کا ایک مختصر واقعہ موجود ہے جو سند کے لحاظ سے معتبر ہے، لہٰذا اس کا بیان کرنا درست ہے، لیکن اس میں زندہ درگور کرنے والے صحابی کا نام مذکور نہیں ہے۔

وضین بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ ہم جاہلیت میں مبتلا لوگوں اور بتوں کے پجاری تھے۔ ہم اپنی اولاد کو قتل کر دیا کرتے تھے۔ میری ایک بیٹی تھی جب وہ کچھ بڑی ہوئی توجب بھی میں اسے بلاتا تو وہ میرے بلانے پر خوش ہوتی تھی۔ ایک دن میں نے اسے بلایا وہ میرے پیچھے آئی میں چلتا ہوا اپنے گھر کے کنویں کے پاس آگیا جو زیادہ دور نہیں تھا۔ میں نے اس بچی کا ہاتھ پکڑا اور اسے کنویں میں پھینک دیا اس نے مجھ سے آخری بات یہ کہی اے اباجان اے اباجان (راوی کہتے ہیں) نبی اکرم ﷺ رونے لگے یہاں تک کہ آپ کی دونوں آنکھوں سے مسلسل آنسو جاری ہوگئے۔ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ بیٹھے ہوئے حضرات میں سے ایک صاحب نے اس شخص سے کہا تم نے اللہ کے رسول کو غمگین کردیا ہے نبی اکرم ﷺ نے ان صاحب سے کہا رہنے دیں۔ اس نے وہ بات دریافت کی ہے جسے اہم سمجھا ہے ۔ پھر نبی اکرم ﷺ نے اس شخص سے کہا اپنی بات میرے سامنے دوبارہ بیان کرو۔ اس شخص نے دوبارہ بیان کی نبی اکرم ﷺ رونے لگے ۔ یہاں تک کہ آپ کی دونوں آنکھوں سے آنسوجاری ہو کر آپ کی داڑھی مبارک پر گرنے لگے پھر نبی اکرم ﷺ نے اس سے فرمایا لوگوں نے زمانہ جاہلیت میں جو کام کئے تھے اللہ نے انہیں درگزر کردیا ہے ۔ اب تم نئے سرے سے عمل کا آغاز کرو۔ 


أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ النَّضْرِ الرَّمْلِيُّ عَنْ مَسَرَّةَ بْنِ مَعْبَدٍ مِنْ بَنِي الْحَارِثِ بْنِ أَبِي الْحَرَامِ مِنْ لَخْمٍ عَنْ الْوَضِينِ أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا كُنَّا أَهْلَ جَاهِلِيَّةٍ وَعِبَادَةِ أَوْثَانٍ فَكُنَّا نَقْتُلُ الْأَوْلَادَ وَكَانَتْ عِنْدِي ابْنَةٌ لِي فَلَمَّا أَجَابَتْ وَكَانَتْ مَسْرُورَةً بِدُعَائِي إِذَا دَعَوْتُهَا فَدَعَوْتُهَا يَوْمًا فَاتَّبَعَتْنِي فَمَرَرْتُ حَتَّى أَتَيْتُ بِئْرًا مِنْ أَهْلِي غَيْرَ بَعِيدٍ فَأَخَذْتُ بِيَدِهَا فَرَدَّيْتُ بِهَا فِي الْبِئْرِ وَكَانَ آخِرَ عَهْدِي بِهَا أَنْ تَقُولَ يَا أَبَتَاهُ يَا أَبَتَاهُ فَبَكَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى وَكَفَ دَمْعُ عَيْنَيْهِ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ مِنْ جُلَسَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْزَنْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَهُ كُفَّ فَإِنَّهُ يَسْأَلُ عَمَّا أَهَمَّهُ ثُمَّ قَالَ لَهُ أَعِدْ عَلَيَّ حَدِيثَكَ فَأَعَادَهُ فَبَكَى حَتَّى وَكَفَ الدَّمْعُ مِنْ عَيْنَيْهِ عَلَى لِحْيَتِهِ ثُمَّ قَالَ لَهُ إِنَّ اللَّهَ قَدْ وَضَعَ عَنْ الْجَاهِلِيَّةِ مَا عَمِلُوا فَاسْتَأْنِفْ عَمَلَكَ۔ (سنن دارمی، رقم : ٢)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
27 ذی الحجہ 1446 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

کیا ہے ہکوکا مٹاٹا کی حقیقت ؟

مفتی محمد اسماعیل صاحب قاسمی کے بیان "نکاح کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر سولہ سال تھی" کا جائزہ