منگل، 31 مئی، 2022

نماز کی حالت میں چڑھی ہوئی آستین نیچے کرنا

سوال :

بہت سارے لوگ نماز کی نیت باندھنے کے بعد ہاتھ کی آستین نیچے کرتے ہیں اور میں خود یہ کرتا ہوں تو کیا اس طرح کرنا درست ہے؟ اس سے نماز پر کیا اثر ہوگا؟
(المستفتی : انصاری محمد حاشر، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : وضو کے بعد چڑھی ہوئی آستین کو درست کیے بغیر نماز میں شامل ہوجانا اور اسی حالت میں نماز مکمل کرلینا مکروہ ہے۔ اگر آستین اتنی اوپر چڑھی ہوئی ہوں کہ کہنیاں بھی کھل جائیں، تو اس میں کراہت اور زیادہ ہے۔ لہٰذا بہتر تو یہی ہے کہ آستین صحیح کرکے نماز میں شامل ہوا جائے خواہ رکعت کیوں نہ نکل جائے۔ اگر آستین درست کیے بغیر نماز میں شامل ہوجائے اور ایک ہاتھ سے آستین اتار لے تو گنجائش ہے اگر دونوں ہاتھوں سے اتارے یا ایسے انداز سے اتارے کہ دیکھنے والے کو لگے کہ یہ شخص نماز نہیں پڑھ رہا ہے تو نماز فاسد ہوجائے گی۔

(وَ) كُرِهَ (كَفُّهُ) أَيْ رَفْعُهُ وَلَوْ لِتُرَابٍ كَمُشَمِّرِ كُمٍّ أَوْ ذَيْلٍ (وَعَبَثُهُ بِهِ) أَيْ بِثَوْبِهِ ... (قَوْلُهُ أَيْ رَفْعُهُ) أَيْ سَوَاءٌ كَانَ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ أَوْ مِنْ خَلْفِهِ عِنْدَ الِانْحِطَاطِ لِلسُّجُودِ بَحْرٌ. وَحَرَّرَ الْخَيْرُ الرَّمْلِيُّ مَا يُفِيدُ أَنَّ الْكَرَاهَةَ فِيهِ تَحْرِيمِيَّةُ (قَوْلُهُ وَلَوْ لِتُرَابٍ) وَقِيلَ لَا بَأْسَ بِصَوْنِهِ عَنْ التُّرَابِ بَحْرٌ عَنْ الْمُجْتَبَى.
(قَوْلُهُ كَمُشَمِّرِ كُمٍّ أَوْ ذَيْلٍ) أَيْ كَمَا لَوْ دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ وَهُوَ مُشَمِّرٌ كُمَّهُ أَوْ ذَيْلَهُ، وَأَشَارَ بِذَلِكَ إلَى أَنَّ الْكَرَاهَةَ لَا تَخْتَصُّ بِالْكَفِّ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ كَمَا أَفَادَهُ فِي شَرْحِ الْمُنْيَةِ، لَكِنْ قَالَ فِي الْقُنْيَةِ: وَاخْتُلِفَ فِيمَنْ صَلَّى وَقَدْ شَمَّرَ كُمَّيْهِ لِعَمَلٍ كَانَ يَعْمَلُهُ قَبْلَ الصَّلَاةِ أَوْ هَيْئَتُهُ ذَلِكَ اهـ وَمِثْلُهُ مَا لَوْ شَمَّرَ لِلْوُضُوءِ ثُمَّ عَجَّلَ لِإِدْرَاكِ الرَّكْعَةِ مَعَ الْإِمَامِ. وَإِذَا دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ كَذَلِكَ وَقُلْنَا بِالْكَرَاهَةِ فَهَلْ الْأَفْضَلُ إرْخَاءُ كُمَّيْهِ فِيهَا بِعَمَلٍ قَلِيلٍ أَوْ تَرْكِهِمَا؟ لَمْ أَرَهُ: وَالْأَظْهَرُ الْأَوَّلُ بِدَلِيلِ قَوْلِهِ الْآتِي وَلَوْ سَقَطَتْ قَلَنْسُوَتُهُ فَإِعَادَتُهَا أَفْضَلُ تَأَمَّلْ. هَذَا، وَقَيَّدَ الْكَرَاهَةَ فِي الْخُلَاصَةِ وَالْمُنْيَةِ بِأَنْ يَكُونَ رَافِعًا كُمَّيْهِ إلَى الْمِرْفَقَيْنِ. وَظَاهِرُهُ أَنَّهُ لَا يُكْرَهُ إلَى مَا دُونَهُمَا. قَالَ فِي الْبَحْرِ: وَالظَّاهِرُ الْإِطْلَاقُ لِصِدْقِ كَفِّ الثَّوْبِ عَلَى الْكُلِّ اهـ وَنَحْوُهُ فِي الْحِلْيَةِ، وَكَذَا قَالَ فِي شَرْحِ الْمُنْيَةِ الْكَبِيرِ: إنَّ التَّقْيِيدَ بِالْمِرْفَقَيْنِ اتِّفَاقِيٌّ. قَالَ: وَهَذَا لَوْ شَمَّرَهُمَا خَارِجَ الصَّلَاةِ ثُمَّ شَرَعَ فِيهَا كَذَلِكَ، أَمَّا لَوْ شَمَّرَ وَهُوَ فِيهَا تَفْسُدُ لِأَنَّهُ عَمَلٌ كَثِيرٌ۔ (شامی : ١/٦٤٠)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
29 شوال المکرم 1443

2 تبصرے: