منگل، 24 مئی، 2022

قبر میں سوال کے وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت؟

سوال :

محترم مفتی صاحب ! بیانات میں سننے میں آیا ہے کہ قبر میں سوال کے وقت ہر مردے کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کرائی جائے گی، کیا یہ درست ہے؟
(المستفتی : ارشاد ناظم، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : احادیث مبارکہ کے بیان سے صرف اتنی بات معلوم ہوتی ہے کہ دفن کے بعد صاحب قبر سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔

مسلم شریف میں ہے :
حضرت انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا : جب کسی بندے کو قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی اس سے منہ پھیر کر واپس چلے جاتے ہیں تو وہ مردہ ان کی جوتیوں کی آواز سنتا ہے۔ آپ نے فرمایا اس مردے کے پاس دو فرشتے آتے ہیں وہ اس مردے کو بٹھا کر کہتے ہیں کہ تو اس آدمی یعنی رسول اللہ ﷺ کے بارے میں کیا کہتا ہے؟ اگر وہ مومن ہو تو کہتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں تو پھر اس سے کہا جاتا ہے کہ اپنے دوزخ والے ٹھکانے کو دیکھ اس کے بدلے میں اللہ نے تجھے جنت میں ٹھکانہ دیا ہے۔ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا وہ مردہ دونوں ٹھکانوں کو دیکھتا ہے۔

لیکن سوال کے وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف اشارہ کی کیا کیفیت اور کیا شکل ہوگی؟ اس کی صراحت احادیث مبارکہ میں نہیں ہے۔ بلکہ شارحین حدیث نے شواہد و قرائن کی روشنی میں چند کیفیات بیان فرمائی ہیں۔

١) اشارہ معہود ذہنی کی طرف ہوگا یعنی ذہن میں جو کچھ موجود ہے اسے خارج میں "موجود"  کا درجہ دے کر اشارہ کیا جائے گا۔

٢) نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے روضہ اطہر اور میت کی قبر کے درمیان جو حجابات ہیں وہ ہٹادیئے جائیں گے۔

٣) مرقاة میں قیل کے ضعیف صیغہ کے ذریعے یہ توجیہ بھی بیان کی گئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی شکل بناکر اس کے سامنے پیش کی جائے گی۔

ان تینوں کیفیات میں سے کوئی ایک کیفیت ہوسکتی ہے۔ کسی ایک کیفیت کو حتمی نہیں کہا جاسکتا۔ لہٰذا حتمی طور پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ قبر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت کرائی جائے گی۔ اسی طرح یہ بھی سمجھ لیا جائے کہ ایک مسلمان کے لیے صرف یہ عقیدہ رکھنا کافی ہے کہ مرنے کے بعد قبر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق سوال ہوگا، لیکن اس کی کیا کیفیت ہوگی؟ اس کا جاننا اور اس کا عقیدہ رکھنا ہم پر ضروری نہیں۔

عَنْ قَتَادَةَ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، قَالَ : قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ، وَتَوَلَّى عَنْهُ أَصْحَابُهُ، إِنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ، قَالَ : يَأْتِيهِ مَلَكَانِ، فَيُقْعِدَانِهِ، فَيَقُولَانِ لَهُ : مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ؟ قَالَ : فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ فَيَقُولُ : أَشْهَدُ أَنَّهُ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ، قَالَ : فَيُقَالُ لَهُ : انْظُرْ إِلَى مَقْعَدِكَ مِنَ النَّارِ، قَدْ أَبْدَلَكَ اللَّهُ بِهِ مَقْعَدًا مِنَ الْجَنَّةِ. قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : فَيَرَاهُمَا جَمِيعًا۔ (صحیح المسلم، رقم : ٢٨٧٠)

فِي هَذا الرَّجُلِ، أيْ: فِي شَأْنِهِ، واللّامُ لِلْعَهْدِ الذِّهْنِيِّ، وفِي الإشارَةِ إيماءٌ إلى تَنْزِيلِ الحاضِرِ المَعْنَوِيِّ مَنزِلَةَ الصُّورِيِّ مُبالَغَةً۔ (مرقاۃ المفاتیح : ١/٢٠٤) ما كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذا الرَّجُلِ؟): قِيلَ يُصَوَّرُ صُورَتُهُ علیہ السلام فَيُشارُ إلَيْهِ۔ (١/٢١٠)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
22 شوال المکرم 1443

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں