اتوار، 15 مئی، 2022

تعطیل کے بعد مدرسہ کے پہلے دن غیر حاضری پر طلباء سے دوبارہ داخلہ فیس لینا

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ غیر حاضری کی وجہ سے طلباء سے مالی جرمانہ وصول کرنا کیسا ہے؟ ایک مدرسہ میں سالانہ تعطیل کے بعد طلباء اگر پہلے دن غیرحاضر ہوں تو ان سے دوبارہ داخلہ فیس لی جاتی ہے۔ یہ بات مدرسہ کے داخلہ فارم میں بھی لکھی ہوئی ہے تو کیا ایسا کرنا شرعاً جائز ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : حافظ عبداللہ، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : غیرحاضر رہنے یا کسی ضابطہ کی خلاف ورزی کی صورت میں طلباء سے مالی جرمانہ وصول کرنا جمہور علماء امت کے نزدیک جائز نہیں ہے۔ اگروصول کرلیا گیا ہوتو اس کا واپس کردینا ضروری ہے۔ صورت مسئولہ میں چونکہ داخلہ فیس کے نام پر کچھ رقم وصول کی جارہی ہے تو یہ حد جواز میں آسکتی ہے۔ گویا یہ سمجھا جائے گا کہ تعطیل کے بعد مدرسہ کے پہلے دن غیرحاضری پر طالب علم کا مدرسہ سے اخراج کردیا گیا۔ اور اب دوبارہ داخلہ فیس لے کر داخلہ دیا جارہا ہے۔ اور چونکہ مدرسہ کے داخلہ فارم پر یہ شرط لکھی ہوئی بھی ہے تو پھر شرعاً اسے جرمانہ نہیں کہا جائے گا۔ البتہ ایسی شرط غیرمناسب معلوم ہوتی ہے کیونکہ پہلے دن غیر حاضری پر تو یہ ضابطہ ہے لیکن اس کے بعد غیرحاضری پر ایسا کوئی ضابطہ نہیں۔ جبکہ جو نقصان طالب علم کا پہلے دن ہوگا وہی نقصان تو بعد میں بھی ہوگا، لہٰذا ناظمِ مدرسہ کو اس شرط پر نظر ثانی کرنا چاہیے۔

التعزیر بالمال جائز عند أبی یوسف، وعندہما وعند الأئمۃ الثلاثۃ لایجوز، وترکہ الجمہور للقرآن والسنۃ : وأما القرآن فقولہ تعالی :{فاعتدوا علیہ بمثل ما اعتدی علیکم} ۔ وأما السنۃ فإنہ علیہ السلام قضی بالضمان بالمثل ولأنہ خبر یدفعہ الأصول فقد أجمع العلماء علی أن من استہلک شیئاً لم یغرم إلا مثلہ أو قیمتہ۔ (اعلاء السنن : ۱۱/۷۳۳)

وَفِي الْبَحْرِ وَلَا يَكُونُ التَّعْزِيرُ بِأَخْذِ الْمَالِ مِنْ الْجَانِي فِي الْمُذْهَبِ۔ (مجمع الأنہر : ۱/۶۰۹)

وَالْحَاصِلُ أَنَّ الْمَذْهَبَ عَدَمُ التَّعْزِيرِ بِأَخْذِ الْمَالِ۔ (شامی : ٤/٦٢)

لَا يَجُوزُ لِأَحَدٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ أَخْذُ مَالِ أَحَدٍ بِغَيْرِ سَبَبٍ شَرْعِيٍّ.۔ (شامی : ٤/٦١)

قال اللہ تعالٰی : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا۔ (سورۃ الاسراء، آیت : ۳۴)

وأوفوا بالعہدأي ما عاہدتم اللہ تعالی علیہ من التزام تکالیفہ وعاہدتم علیہ غیرکم من العباد، ویدخل فی ذلک العقود۔ (روح المعانی : ۹/۱۰۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
13 شوال المکرم 1443

2 تبصرے:

  1. اسلام وعلیکم و رحمۃاللہ و برکاتہ


    مفتی صاحب
    مسئلہ یہ ہے کہ دیہاتوں میں عام طور پر شادیوں میں مسجد یہ مدرسے کے لئے چندہ جمع کیا جاتا ہے
    جس میں غیر مسلم حضرات بھی پیسہ دیتے ہیں
    1)تو کیا ایسی مجالس میں چندہ کرنا صحیح ہے

    2)کیا غیر مسلم حضرات کا دیا ہوا پیسہ مسجد یہ مدرسے میں استعمال کیا جاسکتا

    برائے مہربانی قرآن و حدیث کی روشنی میں مدلل جواب مرہمت فرمائے عین نوازش ہو گی

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. مفتی صاحب کے پرسنل پر جاکر مسئلہ پوچھے بلاگ پر نہیں-

      حذف کریں