بدھ، 11 مئی، 2022

لاؤڈ-اسپیکر میں اذانِ فجر کی ممانعت اس کے باوجود ہم پر نماز فرض ہے

لاؤڈ-اسپیکر میں اذانِ فجر کی ممانعت
       اس کے باوجود ہم پر نماز فرض ہے

قارئین کرام ! سپریم کورٹ کے ایک پرانے فیصلہ کی بنیاد پر فی الحال ڈپارٹمنٹ کی طرف سے سختی سے عمل کروایا جارہا ہے۔ جس کی وجہ سے فجر کی اذان لاؤڈ-اسپیکر پر دینا بند کردیا گیا ہے۔ اور ان تین چار دنوں میں ہی بخوبی اس بات کا اندازہ لگا لیا گیا ہے کہ لاؤڈ-اسپیکر پر اذان نہ ہونے کی وجہ سے نماز فجر کے مصلیان کی تعداد میں واضح طور پر کمی ہوئی ہے۔ لہٰذا ایسے حالات میں ضروری ہے کہ مسجد میں باجماعت نماز کی شرعی حیثیت، نماز کی اہمیت اور اس کے ترک پر وعیدوں کو جان لیا جائے تاکہ ایک عظیم الشان عبادت نماز کے ساتھ غفلت اور سُستی کا معاملہ نہ ہو۔

عام حالات میں مردوں کے لئے مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے کو سنت مؤکدہ اور قریب قریب واجب قرار دیا گیا ہے، احادیث مبارکہ میں باجماعت نماز ادا کرنے کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے اور بلا عذر اس کے ترک پر وعیدیں وارد ہوئی ہیں جن میں سے چند احادیث یہاں ذکر کی جاتی ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص اچھی طرح وضو کرکے فرض نماز کی با جماعت ادائیگی کے لئے گیا اور امام کے ساتھ نماز پڑھی تو اس کے سب گناہ معاف کردئے جاتے ہیں۔ (الترغیب والترہیب ۱؍۱۵۹)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : لوگ جماعت چھوڑنے سے باز آجائیں ورنہ میں ان کے گھروں کو ضرور جلوادوں گا۔ (الترغیب والترہیب ۱؍۱۷)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : نہایت بے مروتی اور کفر ونفاق کی علامت ہے کہ آدمی اذان سن کر نماز کے لئے حاضر نہ ہو۔ (الترغیب والترہیب ۱؍۱۶۷)

والجماعة سنة موٴکدة للرجال ۔۔من غیر حرج (درمختار) قال الشامي: قید لکونہ سنة موٴکدة أو واجبة، فبالحرج یرتفع ویرخص في ترکہا ولکنہ یفوتہ الأفضل (درمختار مع الشامي، ۲/ ۲۸۷- ۲۹۱، باب الإمامة، زکریا/بحوالہ کتاب المسائل)

موجودہ حالات میں جبکہ لاؤڈ-اسپیکر پر فجر کی اذان نہیں ہورہی ہے تو آپ قطعاً یہ نہ سمجھیں اب آپ کے لیے نماز کے معاملے میں اللہ کے یہاں نرمی کا معاملہ کیا جائے گا۔ بلکہ یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ پنج وقتہ نمازیں آپ پر فرض ہیں خواہ آپ کو مسجد میسر ہو یا نہ ہو، آپ کو اذان کی آواز آرہی ہو یا نہ آرہی ہو۔ نماز کی فرضیت اپنی جگہ باقی رہے گی۔ نماز کی اہمیت اور اس کے ترک پر وعیدوں پر مشتمل احادیث کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے، جن میں سے چند احادیث یہاں نقل کی جارہی ہیں تاکہ نصیحت پکڑنے والوں کے لیے عمل میں جلاء پیدا ہو۔

▪ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
بُنِیَ الْاِسْلَامُ عَلیٰ خَمْسٍ: شَہَادَۃِ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّداً رَّسُوْلُ اللّٰہِ، وَاِقَامِ الصَّلوٰۃِ وِاِیْتَائِ الزَّکَوٰۃِ وَالْحَجِّ وَصَوْمِ رَمَضَانَ۔ (بخاری شریف)
ترجمہ: اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے، توحید ورسالت کی گواہی، نماز کا قائم کرنا، زکوٰۃ کی ادائیگی، حج بیت اللہ اور ماہِ رمضان کے روزے۔

اس حدیث میں واضح کردیا گیا ہے کہ شہادتِ توحید ورسالت کے بعد اسلام میں سب سے عظیم مقام نماز کو حاصل ہے۔

▪مِفْتَاحُ الْجَنَّۃِ الصَّلاَۃُ، وَمِفْتَاحُ الصَّلاَۃِ الطُّہُوْرُ۔ (مسند احمد)
ترجمہ : جنت کی کنجی نماز ہے اور نماز کی کنجی وضو ہے۔
معلوم ہوا کہ جس طرح وضو کے بغیر نماز درست نہیں ہوتی، اسی طرح نماز کے بغیر جنت میں داخلہ نہیں ہوسکتا۔

▪اَلصَّلاَۃُ نُوْرٌ۔ (مسلم شریف)
ترجمہ : نماز روشنی ہے۔
قبر اور قیامت کی تاریکیوں میں نماز روشنی ہے، نماز بندۂ مؤمن کو برائیوں سے روک کر نیکیوں کی طرف رہنمائی کرتی ہے، قیامت کے دن نماز بہت بڑا سہارا اور آسرا ثابت ہوگی، نمازی کے چہرہ کی نورانیت نماز کا فیض ہوتی ہے۔

▪اَلصَّلاَ ۃُ عِمَادُ الدِّیْنِ، فَمَنْ اَقَامَہَا اَقَامَ الدِّیْنَ، وَمَنْ ہَدَمَہَا ہَدَمَ الدِّیْنَ۔
ترجمہ : نماز دین کا ستون ہے، جو اسے قائم کرے گا وہ دین کو باقی رکھے گا اور جو اسے ڈھائے گا وہ دین کو ڈھا دے گا۔

▪اَوُّلُ مَا یُحَاسَبُ بِہٖ الْعَبْدُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ الصَّلاَۃُ، فَاِنْ صَلُحَتْ صَلُحَ سَائِرُ عَمَلِہٖ، وَاِنْ فَسَدَتْ فَسَدَ سَائِرُ عَمَلِہٖ۔ (طبرانی)
ترجمہ: قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کا حساب ہوگا، اگر نماز اچھی ہوئی تو بقیہ اعمال بھی اچھے ہوں گے اور اگر نماز خراب ہوئی تو بقیہ اعمال بھی خراب ہوں گے۔

▪عَنْ عَلِیٍّ قَالَ : کَانَ آخِرُ کَلاَمِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ا اَلصَّلاَۃَ اَلصَّلاَۃَ، اِتَّقُوْا اللّٰہَ فِیْمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ۔ (سنن ابی داؤد)
ترجمہ : حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری وصیت یہ فرمائی کہ نماز کی پابندی کرو، اور اپنے غلاموں اور ماتحتوں کے سلسلہ میں اللہ سے ڈرو اور ان کے حقوق ادا کرو۔

▪رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کی پابندی کے بڑے تاکیدی احکام ارشاد فرمائے ہیں اور نماز چھوڑنے پر سخت وعیدوں اور سزاؤں کا ذکر فرمایا ہے۔ کہیں فرمایا ہے :
بَیْنَ الرَّجُلِ وَبَیْنَ الْکُفْرِ تَرْکُ الصَّلاَۃِ۔ (صحیح مسلم)
ترجمہ: آدمی کے درمیان اور کفر کے درمیان حد فاصل نماز ہے۔

▪کہیں فرمایا :
اَلْعَہْدُ الَّذِیْ بَیْنَنَا وَبَیْنَہُمْ اَلصَّلاَۃُ، فَمَنْ تَرَکَہَا فَقَدْ کَفَرَ۔ (ترمذی شریف)
ترجمہ: ہمارے اور منافقین کے درمیان معاہدہ نماز کا ہے، جو نماز چھوڑے وہ کافر ہوا۔
معلوم ہوا کہ نماز انسان کے ایمان کی دلیل ہے، اور جان بوجھ کر نماز چھوڑنا انسان کو کفر کی سرحد میں پہنچانے والا عمل ہے، زمانۂ رسالت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر منافقین کا نفاق ظاہر ہونے کے باوجود منافقین کو جو جانی ومالی تحفظ اور معاشرتی وتمدنی حق حاصل تھا وہ ان کے نماز میں ظاہری طور ہی سے سہی شریک ہونے کی بنیاد پر تھا، اسی لئے پیغمبر علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ منافقین اگر نماز ترک کرنے لگیں، تو ان کا کفر آشکارا ہوجائے گا اور وہ کسی مراعات کے مستحق نہ رہیں گے، بلکہ ان کے ساتھ کافروں جیسا سلوک کیا جائے گا۔

▪حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نصیحت کرتے ہوئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
لَا تَتْرُکُوْا الصَّلاَۃَ مُتَعَمِّدِیْنَ، فَمَنْ تَرَکَہَا مُتَعَمِّداً فَقَدْ خَرَجَ مِنَ الْمِلَّۃِ۔ (طبرانی)
ترجمہ : جان بوجھ کر نماز نہ چھوڑو، جو عمداً نماز چھوڑتا ہے وہ مذہب اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔

▪حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
لَا تَتْرُکَنَّ صَلَاۃً مَکْتُوْبَۃً مُتَعَمِّداً، فَاِنَّ مَنْ تَرَکَ صَلاَۃً مَکْتُوْبَۃً مُتَعَمِّداً فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْہُ ذِمَّۃُ اللّٰہِ۔ (مسند احمد)
ترجمہ: تم ہرگز عمداً کوئی فرض نماز نہ چھوڑنا، ورنہ اللہ کا ذمہ تم سے بری ہوجائے گا۔

▪حضرت ابوالدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی یہی نصیحت کی :
وَلَا تَتْرُکْ صَلاَۃً مَکْتُوْبَۃً مُتَعَمِّداً، فَمَنْ تَرَکَہَا مُتَعَمِّداً فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْہُ الذِّمَّۃُ۔ (ابن ماجہ)
ترجمہ: کبھی بالارادہ نماز نہ چھوڑنا؛ کیوں کہ جس نے دیدہ ودانستہ نماز چھوڑدی تو اس کے بارے میں وہ ذمہ داری ختم ہوگئی، جو اللہ کی جانب سے اس کے وفادار اور صاحب ایمان بندوں کے لئے ہے۔

ان احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ دیدہ ودانستہ نماز چھوڑنا ایک کافرانہ عمل اور باغیانہ سرکشی ہے، جس کی وجہ سے انسان عنایاتِ خداوندی اور رحمت ربانی کا مستحق نہیں رہتا، اور اللہ کی کرم فرمائی اور نوازش اس سے بری الذمہ ہوجاتی ہے۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے یہی فرمایا گیا ہے کہ نماز ایمان کا اتنا عظیم شعار ہے کہ اس کا ترک بظاہر اس کی دلیل ہے کہ ایسا شخص اللہ اور رسول اور اسلام سے لاتعلق اور ملت اسلامیہ سے الگ ہوگیا۔ بعض ائمہ اس طرح کی احادیث سے یہ سمجھتے ہیں کہ عمداً نماز چھوڑنے والا آدمی قطعی طور پر مرتد اور کافر ہوجاتا ہے، اور اس کے ساتھ کافروں جیسا سلوک ہی ہوگا، مگر اکثر ائمہ کا موقف یہ ہے کہ نماز چھوڑنا گو ایک کافرانہ اور باغیانہ عمل ہے، جس کا کوئی جواز اسلام میں نہیں۔ لیکن اگر کسی بدبخت نے صرف غفلت سے نماز چھوڑی ہے مگر اس کے دل میں نماز سے انکار اور عقیدہ میں کوئی انحراف نہیں پیدا ہوا ہے، تو اگرچہ وہ دنیا وآخرت میں سخت سے سخت سزا کا مستحق ہے، لیکن اسلام سے اور ملت اسلامیہ سے اس کا تعلق بالکل ٹوٹ نہیں گیا ہے، اور اس پر مرتد کے احکام جاری نہیں ہوں گے، ان حضرات کے نزدیک مندرجہ بالا احادیث میں ترک نماز کو جو کفر کہا گیا ہے، اس کا مطلب کافرانہ عمل ہے اور اس گناہ کی انتہائی شدت اور خباثت ظاہر کرنے کے لئے یہ اندازِ بیان اختیار کیا گیا ہے، جس طرح کسی مضر غذا یا دوا کے لئے کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ بالکل زہر ہے۔ (معارف الحدیث ۳؍۱۱۲)

▪ایک حدیث میں فرمایا گیا :
مَنْ فَاتَتْہُ صَلاَۃٌ فَکَأَنَّمَا وَتِرَ أَہْلُہٗ وَمَالُہٗ۔ (مسند احمد)
ترجمہ : جس کی کوئی نماز چھوٹ گئی تو گویا اس کے اہل وعیال اور مال ودولت سب لٹ گئے۔
یعنی مال ودولت اور اہل وعیال کو لاحق ہونے والے نقصان کے خسارے سے بڑا خسارہ کسی نماز کے فوت ہوجانے میں ہے اور مال وعیال کو نقصان سے محفوظ رکھنے کا جو خیال واہتمام ہوتا ہے، اس سے کہیں زیادہ اہتمام نماز کو فوت ہونے سے محفوظ رکھنے کا ہونا چاہئے۔

▪حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے زمانۂ خلافت میں تمام عمال کے نام یہ فرمان لکھا کہ:
اِنَّ اَہَمَّ اُمُوْرِکُمْ عِنْدِیْ الصَّلَاۃُ، مَنْ حَفِظَہَا وَحَافَظَ عَلَیْہَا حَفِظَ دِیْنَہٗ، وَمَنْ ضَیَّعَہَا فَہُوَ لِمَا سَوَاہَا أَضْیَعُ۔ (موطا امام مالک)
ترجمہ : تمہارے کاموں میں میرے نزدیک سب سے اہم کام نماز ہے، جس نے نماز کی کما حقہ حفاظت کی اس نے اپنے پورے دین کی حفاظت کرلی اور جس نے نماز کو ضائع کیا تو وہ دین کے دوسرے کاموں کو اور زیادہ برباد کردے گا۔
معلوم ہوا کہ نماز پوری زندگی کو پرکھنے کا معیار ہے، جس کی نماز جتنی اچھی ہوگی اس کی باقی زندگی اتنی ہی اچھی ہے، اور جس کی نماز میں جتنی کمی اور کوتاہی ہوگی اس کی باقی زندگی میں بھی اسی قدر کمی ہوگی۔ (اسلام کی سب سے جامع عبادت نماز)

امید ہے کہ درج بالا روایات سے یہ بات بالکل اچھی طرح سمجھ میں آجائے گی کہ اسلام میں نماز کا درجہ بہت بڑھا ہوا ہے، لہٰذا ان ناگفتہ بہ حالات میں اگرچہ مساجد کے داخلہ پر پابندی لگی ہوئی ہے اس کے باوجود ہم سے ایک نماز بھی فوت نہ ہو، کیونکہ نماز ہر عاقل مرد وعورت پر بہرحال  فرض ہے۔ اور اسی نماز کے ذریعے ہمارے مسائل حل ہوں گے۔

اللہ تعالٰی ہم سب کو فرض نمازوں کو پابندی کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اس میں کسی بھی قسم کی غفلت اور کوتاہی سے ہماری حفاظت فرمائے۔ آمین ثم آمین

2 تبصرے:

  1. جَــــــــزَاک الــلّٰــهُ خَـــــيْراً

    جواب دیںحذف کریں
  2. mufti saheb ager kuch log basti walon ko fajer ki namaz k liyr uthane jain to kya ye sahi hai seerat se sabit rahberi farmain

    جواب دیںحذف کریں