پیر، 1 نومبر، 2021

اے بی سی ABC ایپ کے ذریعے پیسے کمانا

سوال :

مفتی صاحب ! آج کل Android فون میں ABC نام سے ایک اپلیکیشن  بہت زیادہ چل رہا ہے جس کے ذریعہ سے باقاعدہ اپلیکیشن والی کمپنی اس کے استعمال کرنے والوں کو پیسہ فراہم کرتی ہیں اپلی کیشن استعمال کرنے والوں کو کچھ پیسوں کا ریچارج کرنا ہوتا ہے جس کے بعد اپلیکیشن کے ذریعے  کچھ ویڈیو بھیجا جاتا ہے ہے جس کو اپلیکیشن استعمال کرنے والے کو لائک اور سبسکرائب کرنا ہوتا ہے ایسا کرنے پر کمپنی کی طرف سے سے پیسہ ملتا ہے۔ اور اگر ہم اس ایپ کا کسی اور کو ممبر بنائیں اور وہ کسی کو ممبر بنائے پھر یہ کسی اور کو بنائے تو ان سب کی طرف سے کمیشن کے نام پر بھی رقم ملتی ہے۔ سوال عرض یہ ہے کہ اس طرح کی حاصل ہونے والی آمدنی جائز ہے یا ناجائز؟ اور اگر کوئی شخص اس طرح کی آمدنی حاصل کر چکا ہو تو پھر اس کے لیے کیا حکم ہے؟ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : عبیدالرحمن ایم آر، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ کے جواب سے پہلے یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلی جائے کہ موجودہ ڈیجیٹل دور میں جبکہ پیسے کمانے کے نئے نئے طریقے آئے دن وجود میں آرہے ہیں تو شرعاً ہمارا یہ فریضہ ہے کہ کوئی بھی طریقہ اختیار کرنے سے پہلے مفتیان کرام سے اس کی شرعی حیثیت معلوم کرلیں۔ شرعی حیثیت معلوم کیے بغیر کسی طریقہ کو اختیار کرنے میں قوی اندیشہ ہے کہ ہم کسی غیرشرعی طریقہ کو اختیار کرکے اپنی دنیا وآخرت کی بربادی کا سامان کرلیں، پھر جب کسی کے ذریعے اس کے ناجائز ہونے کا علم ہوتو نقصان ہونے کی وجہ سے فوری طور پر اس کو ترک کرنے میں پس وپیش ہو۔ جبکہ یہ طریقہ اختیار کرنے سے پہلے اس کی شرعی حیثیت معلوم کرلی جائے تو ناجائز ہونے کی صورت میں اس وقت اس سے بچنا آسان ہوتا ہے۔

بلاشبہ اے بی سی ایپ شہر میں وبا کی طرح پھیل رہا ہے، اس ایپ سے متعلق کچھ باتیں تو سوال نامہ میں مذکور ہیں، اور بعض باتیں ہمیں زبانی متعدد افراد سے معلوم ہوئی ہیں، لہٰذا ان سب باتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے جواب لکھا جارہا ہے۔

اس ایپ میں سب سے پہلی قباحت یہ ہے کہ اس سے جوائنٹ ہونے اور کام لینے کے لیے آپ کو ایک بڑی قیمت ادا کرنی پڑے گی جو ایک ہزار سے لے کر پانچ لاکھ ساٹھ ہزار تک ہے۔ جبکہ اس طرح کام دینے کے لیے کسی فیس کا لینا شرعاً جائز نہیں ہے۔

دوسری قباحت یہ ہے کہ جتنی بڑی رقم آپ ریچارج یا ممبر شپ کے نام پر دیں گے اسی کے حساب سے آپ کو کام اور اجرت دی جائے گی۔ جبکہ یہ طریقہ بھی اسلامی طریقہ اجارہ کے خلاف ہے۔

تیسری اہم اور بنیادی قباحت یہ ہے کہ جن ویڈیوز کو لائک اور جن چینلس کو سبسکرائب کرنے کا کام دیا جاتا ہے اس میں عموماً ایسے مواد ہوتے ہیں جو غیر شرعی ہوتے ہیں مثلاً اس میں عورتیں، میوزک وغیرہ ہوتی ہیں۔ لہٰذا یہ عمل تعاون علی المعصیت یعنی گناہ کو پھیلانے اور اس کو پروموٹ کرنے میں شمار ہوگا، جس پر اجرت لینا بھی جائز نہیں ہے۔

اہم بات یہ بھی ملحوظ رہے کہ جب اس ایپ کے ریچارج کی مقدار لاکھوں میں جا رہی ہے جس سے غالب گمان ہوتا ہے کہ یہ طریقہ کار بہت جلد فراڈ اور دھوکہ ثابت ہوگا، جبکہ آپ کے پاس اپنی ادا کی ہوئی رقم کا کوئی پروف نہیں ہے، قوی اندیشہ ہے کہ آج آپ رقم ادا کریں اور کل سے ایپ کام کرنا بند کردے۔ آپ کس بندے کا اور کس کمپنی کا کام کررہے ہیں؟ اس کا بھی آپ کو علم نہیں ہے۔ لہٰذا قانونی چارہ جوئی کے لیے آپ کے پاس کوئی راستہ ہی نہیں ہوگا۔

درج بالا تفصیلات سے جب یہ بات وضاحت کے ساتھ معلوم ہوگئی کہ اس ایپ میں متعدد شرعی قباحتیں ہیں جس کی وجہ سے اس کا ممبر بننا اور اس سے پیسے کمانا جائز نہیں ہے تو پھر کسی کو اس ایپ سے جوائنٹ کرکے اس کا کمیشن حاصل کرنا بھی ناجائز ہوگا۔ لہٰذا جن لوگوں نے اس ایپ کے ذریعے پیسے کمائے ہیں ان کے لیے صرف اپنی جمع کردہ رقم ہی حلال ہوگی، بقیہ رقم کا بلانیت ثواب غریبوں میں تقسیم کردینا ضروری ہوگا۔

قال اللہ تعالیٰ : وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی، وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ۔ (المائدۃ، آیت : ۲)

قَالَ  (وَلَا يَجُوزُ عَلَى الْغِنَاءِ وَالنَّوْحِ وَالْمَلَاهِي) لِأَنَّ الْمَعْصِيَةَ لَا يُتَصَوَّرُ اسْتِحْقَاقُهَا بِالْعَقْدِ فَلَا يَجِبُ عَلَيْهِ الْأَجْرُ ... وَإِنْ أَعْطَاهُ الْأَجْرَ وَقَبَضَهُ لَا يَحِلُّ لَهُ وَيَجِبُ عَلَيْهِ رَدُّهُ عَلَى صَاحِبِهِ۔ (تبیین الحقائق : ٥/١٢٥)

وکل شرط لا یقتضیہ العقد وفیہ منفعة لأحد المتعاقدین أو للمعقود علیہ وهو من أهل الاستحقاق یفسدہ۔ (هدایہ : ۳/۵۹)

وَيَرُدُّونَهَا عَلَى أَرْبَابِهَا إنْ عَرَفُوهُمْ، وَإِلَّا تَصَدَّقُوا بِهَا لِأَنَّ سَبِيلَ الْكَسْبِ الْخَبِيثِ التَّصَدُّقُ إذَا تَعَذَّرَ الرَّدُّ عَلَى صَاحِبِهِ۔ (شامی : ٩/٣٨٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
25 ربیع الاول 1443

10 تبصرے:

  1. ماشاءاللہ، بہت ہی مدلل اور تسلی بخش جواب۔ جزاک اللہ۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. یہ جو کالج اسکول میں ٹیچرو سے ۱۵ ۱۶ لاکھ روپیے لیتے ہیں پگار چالو کرنے کے لیے کیا جب بھی پیسے لینا دینا جائز ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. یہاں اصل کام دینے والا یعنی حکومت پیسے نہیں لیتی، بلکہ درمیان کے منیجمنٹ کے لوگ لیتے ہیں جن کا یہ رقم لینا بلاشبہ رشوت ہے۔ لیکن ٹیچر اگر اس کام کا اہل ہو۔ اور وہ اپنی ذمہ داری ایمانداری سے ادا کرے تو اس پر ملنے والی اجرت حلال ہی ہوگی۔

      واللہ تعالٰی اعلم

      حذف کریں
  3. اس اپلیکیشن سے حاصل ہونے والی رقم کو ضرورت یا کھانے پینے کے علاوہ مثلاً کالج کی ایڈمیشن فیس میں استعمال کر سکتے؟ کیونکہ دماغ یہ بول رہا ہیکہ حکومت سے ملنے والی اسکالرشپ پر بھی محنت نہیں لگی ہے. دماغ جانے دیں.... دین کیا بولتا ہے. رہنمائی کریں.

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. یہ مال حرام ہے، لہٰذا اسے ڈونیشن یا فیس میں بھی دینا جائز نہیں، اس کا مصرف وہی ہے جو جواب میں لکھا گیا، اور اسکالر شپ حکومت کی طرف سے ہدیہ اور احسان ہے، لہٰذا اس کا لینا بلاکراہت درست ہے۔

      حذف کریں
  4. Agar hum game ya isme kahi ayaat k videos bhi ate hai shirf unhe he kare jo gunha ko promot na karne jaisa ho to kar shakte h

    جواب دیںحذف کریں
  5. Agar hum aisi videos ko like subscribe kare jo gunha ko promot na kare maslan isme kahi games waigaira aayaat wagaira ya craft ki video's bhi aati hai to kiya wo kar shakte hai

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. تب بھی اس کی اجازت نہیں ہوگی، کیونکہ اس میں اور بھی قباحتیں ہیں۔

      حذف کریں