پیر، 29 نومبر، 2021

سنیما گھر میں نوجوانوں کی آتش بازی کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

قارئین کرام ! شہر عزیز اپنی گوناگوں صفات کی وجہ سے ملک بھر بلکہ بیرون ملک بھی مشہور ومعروف ہے۔ شہریان اپنے اچھے کاموں کے ذریعے اس کا نام روشن کرتے رہتے ہیں۔ کرونا کے حالات میں ڈاکٹروں اور سوشل ورکروں نے جہاں شہر عزیز کی نیک نامی میں چار چاند لگائے ہیں تو وہیں دین سے دور اور عقل وشعور سے پیدل نوجوانوں نے اس کی شبیہ پر سوالیہ نشان لگانے کا بھی کام کیا ہے۔

ہم نے پہلے ہی کافی کچھ کھو دیا ہے۔ ہم اپنی مذہبی تعلیمات سے دور ہوگئے ہیں، ہماری تہذیب کا دامن ہمارے ہاتھوں سے چھوٹ چکا ہے، ہم تعلیم کے میدان میں پیچھے ہیں، ہماری معاشی حالت دن بدن بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔ اور آج ہمارے نوجوانوں کو اس بات کا احساس بھی نہیں رہ گیا کہ ہم نے کیا کیا کھو دیا ہے؟ اور کیا کھو رہے ہیں؟ اور مستقبل میں کیا کھو دیں گے؟ ایسے حالات میں تو یہی شعر یاد آتا کہ :

وائے   ناکامی   متاع    کارواں    جاتا     رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

آج ہمارے شہر کے بعض افراد ناکردہ جرم کی سزا کاٹ رہے ہیں تو وہیں حالات کی سنگینی سے بالکل بے خبر اور احساس سے عاری کچھ نوجوانوں کو مالیگاؤں کی زبان میں کہا جائے تو ہری ہری سوجھ رہی ہے۔ ایسے لوگ جن کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ ان کا اپنا کوئی کردار نہیں ہوتا۔ پردہ پر جتنے ہی یہ غریبوں کے مسیحا نظر آتے ہیں حقیقت میں یہ اتنے ہی چاپلوس، خوشامدی اور ابن الوقت ہوتے ہیں۔ ان کی reel life اور real life میں زمین وآسمان کا فرق ہوتا ہے۔ ان کے نام کچھ اور ہوں گے لیکن پردہ پر ان کا کردار کسی دوسرے مذہب کا ہوتا ہے جسے یہ بخوبی نبھاتے ہیں، ابھی ایک فلم کو لے کر چند شرپسندوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں گستاخی کی ہے، لیکن اس نام کے مسلمان اداکاروں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، کبھی ان کی زبان اس مسئلے پر نہیں کھلے گی۔ اور ہمارے بعض نوجوان ایسے لوگوں کے عاشق بنے ہوئے ہیں، ان کی فلموں کی نمائش کے وقت آتش بازی کررہے ہیں، ان پر اپنے حلال اور خون پسینے سے کمائے گئے مال کو بے دردی سے لٹا رہے ہیں۔  جبکہ انہیں اس بات کا اچھی طرح علم ہوجانا چاہیے کہ آدمی دنیا میں جس سے محبت کرتا ہے اور اس کے جیسی حرکتیں کرتا ہے تو قیامت میں اس کا حشر اسی کے ساتھ ہوگا، تو کیا ہمارے یہ نوجوان اس بات کو پسند کریں گے کہ ان کا حشر انہیں کے ساتھ ہو؟

سب سے پہلی بات تو فلمیں دیکھنا گناہ کبیرہ، پھر ناچ گانا کرنے والے بھانڈ لوگوں کے فین اور ان کے عاشق بننا، ان کے نام پر اپنے خون پسینے کی حلال کمائی برباد کرنا۔ آتش بازی کرکے اپنی اور دوسروں کی جان خطرے میں ڈالنا، قانون کی خلاف ورزی کرنا یہ سب کے سب ناجائز اور حرام کام ہیں، اور مومن کی یہ شان ہی نہیں ہے کہ وہ ایک ساتھ ایسے بڑے بڑے گناہوں میں ملوث ہو۔ نوجوان کسی بھی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں، انہیں دیکھ کر مستقبل طے کیا جاتا ہے۔ لہٰذا ہمارے نوجوان اللہ کے لیے حالات کی سنگینی کو سمجھیں اور فوری طور پر ایسے اعمال سے باز آجائیں جو دین ودنیا دونوں کو برباد کرکے رکھ دے۔

اسی طرح ہم سب کی بھی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی استطاعت کے بقدر ان برائیوں کو روکنے کی کوشش کریں، والدین اپنے بچوں کی مکمل خبر گیری کریں، بھائی بھائی پر دھیان دے۔ دوست دوست کی فکر کرے اور اسے برائیوں سے بچانے کی حتی الامکان کوشش کرے، تب جاکر معاشرہ میں کوئی سدھار آئے گا۔

اللہ تعالٰی ہمارے نوجوانوں کو عقل سلیم عطا فرمائے، فضولیات اور منکرات سے ان کی حفاظت فرمائے اور قوم وملت کے لیے کچھ کر گزرنے کا جذبہ ان میں پیدا فرمائے۔ آمین

6 تبصرے: