اتوار، 7 نومبر، 2021

طلاق دینا ہی پڑے تو کتنی طلاق دی جائے؟

سوال :

جناب مفتی صاحب امید ہے کہ آپ خیریت سے ہونگے۔ مسئلہ طلاق میں قانونی گرفت سے بچنے کیلئے ایک ساتھ تین طلاق کی بجائے اگر دو ہی طلاق دی جائے تو کیا طلاق واقع ہو جائے گی؟ (یعنی شوہر اپنی بیوی کو طلاق دینا ہی چاہتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ وہ گرفتاری اور کورٹ کچہری کی جھنجھٹ سے بھی محفوظ رہے) شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : محمد ابراہیم، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : میاں کے بیوی کے تعلقات اس طرح خراب ہوجائیں کہ اب دونوں کے ساتھ رہنے میں نکاح کا سکون برباد اور ایک دوسرے کے حقوق کو ادا کرنا محال ہوجائے تو ایسے حالات کے لیے طلاق مشروع ہوا ہے۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر حالات واقعتاً ایسے ہی ہوگئے ہوں اور شوہر طلاق دینا چاہتا ہے تو تین یا دو طلاق دینے کی ضرورت نہیں۔ بلکہ صرف ایک طلاق دے کر بھی وہ اپنا مقصد حاصل کرسکتا ہے جسے شریعت کی اصطلاح میں طلاق احسن یعنی سب سے بہتر طلاق کہا گیا ہے۔ طلاق احسن کی صورت یہ ہے کہ آدمی اپنی بیوی کو ایک طلاق پاکی کے ایام میں دے جس میں بیوی سے صحبت نہ کی ہو اور عدت گذرنے تک اسے چھوڑے رکھے۔ چنانچہ جب عدت پوری ہوجائے گی تو بیوی پر ایک طلاق بائن پڑ جائے گی۔ اور وہ اپنے شوہر کے نکاح سے نکل جائے گی۔ اب وہ چاہے تو کہیں اور بھی نکاح کرسکتی ہے۔ اور اگر حالات سازگار ہوں تو سابقہ شوہر سے بھی بغیر حلالہ شرعیہ کے از سر نو نئے مہر کے ساتھ نکاح کرسکتی ہے۔ اگر اس سے پہلے کوئی طلاق نہیں دی گئی ہوتو شوہر کو اب دو طلاق کا اختیار ہوگا۔

اسی طرح دو طلاق کا بھی یہی معاملہ ہے کہ عدت کے درمیان اگر اس نے رجوع نہیں کیا تو عدت گزرنے کے بعد بیوی پر دو طلاق واقع ہوجائے گی۔ اب وہ کسی اور سے بھی نکاح کرسکتی ہے اور چاہے تو اپنے سابقہ شوہر سے بھی نکاح کرسکتی ہے۔ اس صورت میں بھی حلالہ شرعیہ کی ضرورت نہیں ہوگی بشرطیکہ اس سے پہلے کوئی طلاق نہ دی گئی ہو۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں شوہر صرف ایک طلاق دے اس صورت میں وہ بہت حد تک کورٹ کچہری کے معاملات سے بھی بچ سکتا ہے، اور شرعاً بھی یہ عمل درست ہوگا۔

قالَ الطَّلاقُ عَلى ثَلاثَةِ أوْجُهٍ: حَسَنٌ، وأحْسَنُ، وبِدْعِيٌّ. فالأحْسَنُ أنْ يُطَلِّقَ الرَّجُلُ امْرَأتَهُ تَطْلِيقَةً واحِدَةً فِي طُهْرٍ لَمْ يُجامِعْها فِيهِ ويَتْرُكَها حَتّى تَنْقَضِيَ عِدَّتُها)؛ لِأنَّ الصَّحابَةَ رَضِيَ اللَّهُ تَعالى عَنْهُمْ كانُوا يَسْتَحِبُّونَ أنْ لا يَزِيدُوا فِي الطَّلاقِ عَلى واحِدَةٍ حَتّى تَنْقَضِيَ العِدَّةُ فَإنَّ هَذا أفْضَلُ عِنْدَهُمْ مِن أنْ يُطَلِّقَها الرَّجُلُ ثَلاثًا عِنْدَ كُلِّ طُهْرٍ واحِدَةٌ؛ ولِأنَّهُ أبْعَدُ مِن النَّدامَةِ وأقَلُّ ضَرَرًا بِالمَرْأةِ ولا خِلافَ لِأحَدٍ فِي الكَراهَةِ۔ (فتح القدیر : ۴۶۶/۳)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
01 ربیع الآخر 1443

1 تبصرہ: