منگل، 16 نومبر، 2021

نادعوی لکھوانے اور اس سے متعلق چند اہم سوالات

سوال :

محترم مفتی صاحب! امید کہ مزاج عالی بخیر ہونگے۔ عرض مسئلہ یہ ہے کہ نعیم اختر نے اپنی بیوی فرزانہ بانو کو تین طلاق دے دی ہے اور اس کی سابقہ بیوی فرزانہ بانو سے نعیم اختر کو ایک لڑکا ہے جس کا نام فہیم احمد ہے اور ایک لڑکی ہے جس کا نام نذیرہ ہے اب لین دین کے نام پر ہونے والی مجلس میں پنچ حضرات بچوں کے متعلق ہندوستانی قانون کے مطابق نادعوی لکھوانے کے لئے نعیم اختر پر دباؤ بنارہے ہیں یعنی بچوں سے متعلق ہرقسم کے اختیارات صرف فرزانہ کو ہی حاصل ہوں گے جبکہ نعیم اختر کا اپنے بچوں پر کوئی اختیار نہیں ہوگا۔
١) مفتی صاحب دریافت طلب امر یہ ہے کہ شریعت کی روشنی میں حقیقی اختیارات اولاد پر کس کے ہیں صرف باپ کے ہیں یا صرف ماں کے ہیں یا دونوں کے مشترکہ ہیں خاص طور پر جب کہ طلاق ہوجائے۔
٢) کیا شرعی اعتبار سے ماں کو پرورش کا حق حاصل ہے؟
٣) اگر پرورش کا حق حاصل ہے تو لڑکی اور لڑکے کے لئے کتنے سال تک وہ پرورش کرے گی؟ اور دوران پرورش ماں اور بچوں کے اخراجات کی ذمہ داری کس پر واجب ہوگی بچوں کے باپ پر؟ یا ان کی ماں پر یا بچوں کے ماموں وغیرہ دیگر رشتے داروں پر ہوگی؟
٤) کیا اس طرح ایک مرتبہ نادعوی لکھوانے کے بعد شرعی اعتبار سے اولاد کے متعلق جملہ حقوق کے اختیارات صرف ماں کو حاصل ہوجاتے ہیں اور باپ کے ذمے سے جملہ حقوق ہمیشہ کے لئے ساقط ہو جاتے ہیں اور باپ کو کوئی اختیار باقی نہیں رہتا۔
٥) ایک بچہ یا بچی کا باپ زندہ ہے اچھا خاصا پیسہ کماتا ہے اور اس کی ماں صرف ضد کی وجہ سے نادعوی لکھوالیتی ہے اور اس کے بعد لوگوں سے ماہ رمضان میں یا اس کے علاوہ دنوں میں یہ کہہ کر زکوۃ کا مطالبہ کرتی ہیکہ میں صاحب اولاد ہوں اور میرا کوئی کمانے والاہے نہیں ہے تو کیا ماں کا یہ عمل شرعی اعتبار سے درست ہے؟ اور باپ کے زندہ ہوتے ہوئے بھی اولاد کے لیے زکوٰۃ کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے؟
٦) مفتی صاحب کیا ایک مرتبہ نادعوی لکھوالینے کی وجہ سے اولاد والد کی وراثت سے بھی بےدخل ہوجاتی ہے اور اولاد کا اپنے والد کی وراثت میں کوئی حصہ باقی نہیں رہتا اگر والد کی وراثت میں کوئی حصہ باقی نہیں رہتا تو یہ بچے آخر کس کے وارث ہوں گے؟
ازراہ کرم مذکورہ بالا سوالات کے جوابات قرآن وسنت کی روشنی میں عنایت فرما کر عندنا ممنون و مشکور اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : عقیل احمد انصاری، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اولاد پر حقیقی اختیارات والد کے ہیں خواہ بچوں کی والدہ نکاح میں ہو یا اسے طلاق دے دیا گیا ہو۔

٢) طلاق کے بعد بچوں کی پرورش کا حق اصلاً والدہ کا ہے۔

٣) طلاق کے بعد والدہ اس وقت تک بچوں کو اپنے پاس رکھ سکتی ہے جب تک انہیں کھانے، پینے، پہننے اور دیگر ضروریات میں ماں کی ضرورت پڑے۔ اور اس کی مدت لڑکے کے لئے سات برس اور لڑکی کے لئے نو برس یعنی بالغ ہونے تک شرعاً مقرر کی گئی ہے۔ البتہ ہر صورت میں بچوں کے نان و نفقہ کا ذمہ دار والد ہوتا ہے، خواہ بچے ددھیال میں رہیں یا ننہیال میں۔ اور مذکورہ مدت کے بعد والد کو اس بات کا اختیار ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اپنے پاس رکھے۔

٤) نادعوی کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔ یہ ایک غیرشرعی معاہدہ ہے، اس کے لکھوا لینے کے بعد بھی تمام اختیارات والدہ کے سپرد نہیں ہوتے۔ بلکہ بدستور والد ہی ذمہ دار ہوتا ہے۔ لہٰذا اسے حتی الامکان اس بات کی کوشش کرنا چاہیے کہ اپنی اولاد کے اخراجات کی ذمہ داری خود اٹھائے، اگر باوجود کوشش کے وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکے تو پھر شرعاً اس پر کوئی گناہ نہیں۔

٥) جب شریعت نے والد کو بچوں کے اخراجات کا ذمہ دار بنایا ہے اور وہ ان کے اخراجات بحسن وخوبی پورے کرسکتا ہے تو پھر اسے نظرانداز کرکے دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانا اور والدہ کا بچوں کے لیے زکوٰۃ تک وصول کرنا بلاشبہ ناجائز اور گناہ ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی احمقانہ عمل ہے، کیونکہ جائز اور باعزت طریقہ موجود ہونے کے بعد ناجائز اور لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کا طریقہ اختیار کرنا حماقت ہی ہے۔

٦) نادعوی لکھوا لینے کے بعد بھی اولاد اپنے والد کی میراث سے محروم نہیں ہوگی۔ والد کے انتقال کے بعد انہیں بہرصورت اپنے والد کے ترکہ سے شریعت کے اصولوں کے مطابق حصہ ملے گا۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ امْرَأَةً قَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ ابْنِي هَذَا کَانَ بَطْنِي لَهُ وِعَائً وَثَدْيِي لَهُ سِقَائً وَحِجْرِي لَهُ حِوَائً وَإِنَّ أَبَاهُ طَلَّقَنِي وَأَرَادَ أَنْ يَنْتَزِعَهُ مِنِّي فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْتِ أَحَقُّ بِهِ مَا لَمْ تَنْکِحِي۔ (سنن ابوداؤد، رقم : ٢٢٧٦)

واذا وقعت الفرقۃ بین الزوجین فالام احق بأ لو لد… فان لم تکن لہ ام فام الام اولیٰ من ام الأب… فان لم تکن ام الام فام الأب اولیٰ من الا خوات… فان لم تکن لہ جدۃ فالاخوات اولیٰ من العمات… والام و الجدۃ أحق بالغلام حتی یا کل وحدہ ویشرب وحدہویلبس وحدہ ویستنجی وہدہ … والخصاف قدر الاستغنآء بسبع سنیں أ حق بالجاریۃ حتی تحیض باب حضانۃ الولد ومن أحق بہ وقد بستع وبہ یفتیٰ ۔ (درمختار مع الشامی، باب الحضانۃ، ۲/۸۸۱)

ونفقۃ الأولاد الصغار علی الأب، لا یشارکہ فیہا أحدکما لا یشارکہ فی نفقۃ الزوجۃ۔ (الہدایۃ، کتاب الطلاق، باب النفقۃ : ۲/۴۴۴)

قال اللہ تعالیٰ : یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْ اَوْلَادِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ، فَاِنْ کُنَّ نِسَآئً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَہُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ، وَاِنْ کَانَتْ وَاحِدَۃً فَلَہَا النِّصْفُ۔ (سورۃ النساء، آیت : ۱۱)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
10 ربیع الآخر 1443

1 تبصرہ: