ہفتہ، 6 نومبر، 2021

عدت کے ایام میں زیورات پہننے کا حکم

سوال :

مفتی صاحب! مسئلہ یہ ہے کہ  شوہر کے انتقال کے بعد عورت کے زیورات کو اتار لیا جاتا ہے اور جو نا نکلے اسکو کاٹ کر نکالا جاتا ہے۔ اگر دانت سونے یا چاندی کے نقلی ہوں تو کیا اس کا بھی نکالنا ضروری ہے؟ رہنمائی فرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : آصف اقبال، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : عدت خواہ بیوہ کی ہو یا مطلقہ بائنہ کی، اس کے لیے زیب وزینت اختیار کرنا، زیورات پہننا، خوشبو لگانا، زینت کے لیے سر میں تیل لگانا، سرمہ یا کاجل لگانا، مہندی لگانا، اور بلاعذرِ شرعی گھر کی چار دیواری سے باہر نکلنا جائز نہیں ہے۔

صورتِ مسئولہ میں جو زیورات بدن کو زخم پہنچائے بغیر نکل سکتے ہوں تو ان کو نکال لینا چاہیے۔ اور جو زخم لگائے بغیر نہ نکل سکیں انہیں رہنے دینا چاہیے۔ البتہ جو چیزیں زیورات میں شامل نہ ہوں مثلاً آپریشن کرکے لگائے گئے اعضاء یا دانت وغیرہ وہ خواہ سونے چاندی کے کیوں نہ ہوں ان کو نکالنے کی ضرورت نہیں۔ لہٰذا ان کو نکالنے کی زحمت کرنا حماقت اور غیر شرعی فعل ٹھہرے گا۔

عَلَى الْمَبْتُوتَةِ وَالْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا إذَا كَانَتْ بَالِغَةً مُسْلِمَةً الْحِدَادُ فِي عِدَّتِهَا كَذَا فِي الْكَافِي .وَالْحِدَادُ الِاجْتِنَابُ عَنْ الطِّيبِ وَالدُّهْنِ وَالْكُحْلِ وَالْحِنَّاءِ وَالْخِضَابِ ... وَإِنَّمَا يَلْزَمُهَا الِاجْتِنَابُ فِي حَالَةِ الِاخْتِيَارِ أَمَّا فِي حَالَةِ الِاضْطِرَارِ فَلَا بَأْسَ بِهَا إنْ اشْتَكَتْ رَأْسَهَا أَوْ عَيْنَهَا فَصَبَّتْ عَلَيْهَا الدُّهْنَ أَوْ اكْتَحَلَتْ لِأَجْلِ الْمُعَالَجَةِ فَلَا بَأْسَ بِهِ وَلَكِنْ لَا تَقْصِدُ بِهِ الزِّينَةَخ كَذَا فِي الْمُحِيطِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/٥٣٣)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
30 ربیع الاول 1443

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں