پیر، 22 نومبر، 2021

روداد سفر پربھنی وجنتور

✍️ محمد عامرعثمانی ملی
(امام وخطیب مسجد کوہ نور)

11 نومبر بروز جمعرات بعد نماز مغرب رفیق درس اور عزیز دوست مولوی مصطفی ملی کے ہمراہ پربھنی کے سفر کے لیے روانگی ہوئی۔ بذریعہ بائک مالیگاؤں سے منماڑ کا سفر ہوا، عشاء کی نماز منماڑ میں ادا کی گئی، اس کے بعد منماڑ میں ہمارے ایک متعلق حذیفہ بھائی کے مکان پر بائک لگادی گئی، پھر منماڑ سے بذریعہ ٹرین پربھنی کا سفر تقریباً نو بجے شروع ہوا۔ رفیق درس مفتی صغیر صاحب ملی کی وجہ سے شہر پربھنی سے پرانا تعلق ہے۔ پہلی مرتبہ دوران تعلیم غالباً 2010 میں پہلی مرتبہ پربھنی کا سفر ہوا تھا پھر اس کے بعد دو مرتبہ اور جانا ہوا یہ چوتھا سفر کافی دنوں بعد یعنی چھ سال کے بعد ہوا تھا۔ ہم لوگوں نے عربی دوم سے لے کر افتاء تک ساتھ تعلیم حاصل کی۔ اس سفر کے سارے انتظامات آپ نے ہی کیے تھے۔ ٹکٹ سے لے کر قیام، طعام، ملاقات، تقریر اور تفریح تک کہ سارے پروگرام آپ نے ہی ترتیب دیئے تھے اور خوب انتظام کیا تھا۔ راستہ میں بھی آپ نے کئی مرتبہ رابطہ کیا۔ الحمدللہ بخیر وعافیت رات دیڑھ بجے ہم لوگ پربھنی پہنچ گئے۔ مفتی صاحب اتنی رات کو سخت سردی میں ہمیں لینے کے لیے اسٹیشن پہنچ گئے اور باصرار گھر لے گئے، جہاں مہمان نوازی کا پورا انتظام تھا، آدھی رات کو کئی طرح کے میٹھے اور تیکھے کھانوں سے ہماری ضیافت کی۔ اس سے فراغت کے بعد رحیم نگر کی حضرت سمیہ مسجد کے حجرہ میں ہمارے لیے آرام دہ بستر کا نظم تھا، سردی سے بچاؤ کا بھی پورا انتظام تھا۔ لہٰذا بستر پر جاتے ہی نیند کی آغوش میں سما گئے۔

پربھنی میں پہلا دن
نماز فجر سے فراغت کے بعد چائے نوش کی گئی، چونکہ رات میں نیند پوری نہیں ہوئی تھی اس لیے دوبارہ آرام کی غرض سے بستر پر چلے گئے، اور دس بجے دوبارہ بستر چھوڑنا پڑا، غسل وغیرہ سے فراغت کے بعد ایک پُر تکلف ناشتہ ہمارا منتظر تھا، جو امامِ مسجد حضرت سمیہ مفتی شفیق صاحب قاسمی ملی کی طرف سے تھا۔ اس مسجد میں مولوی مصطفی نے دو تین سال تراویح بھی پڑھائی ہے۔ جس کی وجہ سے اہلیان محلہ سے ان کے تعلقات کافی مضبوط ہیں، جس کے اثرات آپ کو سفرنامہ میں نظر آئیں گے۔ مفتی شفیق صاحب کا تعارف یہ ہے کہ آپ نے عالمیت دارالعلوم دیوبند سے کرنے کے بعد افتاء معہد ملت سے کیا ہے، اس وقت ہم لوگ پنجم میں تھے، تب سے ہی آپ سے تعلق تھا، اور دوسری مرتبہ پربھنی آپ کے نکاح کی تقریب میں ہی شرکت کے لیے آنا ہوا تھا۔ آپ اس مسجد میں امامت وخطابت کے ساتھ ساتھ منظم مکتب بھی چلاتے ہیں اور ساتھ ہی عوام الناس کی دینی رہنمائی بھی کرتے ہیں۔ آپ کے یہاں جو ناشتہ تھا وہ ناشتہ تو بالکل بھی نہیں تھا بلکہ وہ تو ایک پُر تکلف ڈنر یا لنچ تھا جس میں کئی طرح کی ڈشیں اور پھل تھے۔ ناشتہ کے بعد مولوی مصطفی اور مفتی شفیق صاحب مسجد سمیہ چلے گئے، جہاں مولوی مصطفی کا خطاب طے ہوگیا تھا۔ اور بندے کو مفتی صغیر صاحب کی مسجد، مسجد عابدین جانا تھا، جہاں جمعہ کی تقریر طے تھی۔ لہٰذا وقت پر وہاں پہنچ گئے اور الحمدللہ جان ومال کی حفاظت اور گستاخی رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے جواب کے عنوان پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ خطبہ ونماز کی ذمہ داری بھی بندے نے ہی ادا کی۔ نماز سے فراغت کے بعد کچھ دیر مصلیان اور ذمہ داران سے ملاقات اور گفتگو ہوئی جس کے بعد یہ طے ہوا کہ کچھ دیر احتجاج کی جگہ کو بھی دیکھ لیا جائے، کیونکہ 12 نومبر کو پربھنی میں بھی احتجاجاً بند تھا۔ عوام کو بغیر کسی ریلی کے انفرادی طور پر براہ راست ایک مقام پر جمع ہونے کے لیے کہا گیا تھا۔ چنانچہ ہم لوگ اس مقام پر پہنچے تو کافی بڑا مجمع تھا۔ اور پروگرام اپنے اختتام پر تھا، شرکاء کو ہدایات دی جارہی تھی کہ آپ حضرات نے جس طرح امن وشانتی کے ساتھ احتجاج میں شرکت کی اسی طرح امن وسکون کے ساتھ اپنے گھروں کو لوٹ جائیں۔ چنانچہ عوام نے اس ہدایت کا پورا پاس ولحاظ رکھا۔ اور الحمدللہ بغیر کسی ناخوشگوار واقعہ کے یہ احتجاج مکمل ہوا۔ چونکہ ہمارا ناشتہ کافی ہیوی ہوچکا تھا، اس لیے یہ طے ہوا تھا کہ دوپہر کا کھانا تاخیر سے تناول کریں گے۔ لہٰذا دھرنے سے واپسی کے بعد ہم لوگوں نے تقریباً چار بجے مفتی صغير کی مسجد کے ایک مصلی کے یہاں دوپہر کا کھانا کھایا۔ جو ماشاءاللہ سات آٹھ ڈشوں پر مشتمل تھا۔ مفتی صاحب کی مصلیان کے تئیں فکرمندی، خطابت اور خوش اخلاقی نے ان کے مصلیان کو اپنا گرویدہ بنالیا ہے۔ ماشاءاللہ آپ کی یہاں بڑی گرفت ہے۔ نماز عصر کے بعد مفتی صاحب کے مکتب میں بھی جانے کا موقع ملا۔ یہاں بہت سے مکاتب میں بجائے جمعہ کے اتوار کے دن تعطیل ہوتی ہے۔ مغرب سے کچھ پہلے مولوی سمیر ملی کا فون آگیا جو ہم لوگوں کے جونیئر تھے، چنانچہ نماز مغرب کے لیے وہ اپنی مسجد جس کا نام مسجد موسی آدم ہے، وہاں لے گئے۔ اور نماز پڑھانے کی ذمہ داری بھی بندے کے سپرد کردی۔ یہ مسجد ہماری کوہ نور مسجد کی طرح مارکیٹ ایریا میں ہے، انتہائی شاندار وسیع وعریض اور خوبصورت مسجد ہے۔ جہاں کا نظام بھی ماشاء اللہ بہترین ہے۔ دو امام اور دو مؤذن ہیں، اور سب کی تنخواہیں ماشاءاللہ معقول ہیں۔ امام صاحبان کے لیے ایک عالیشان اور آرام دہ آفس بھی ہے جس میں مطالعہ کے لیے کتابوں کا ذخیرہ بھی جمع کیا جارہا ہے۔ یہاں امام صاحب نے بھی ہماری بڑی خاطر مدارات کی۔

مولوی سمیر صاحب سے رخصت ہونے کے بعد مفتی قاضی سعید انور صاحب کی دعوت پر پربھنی شہر کے دارالقضاء جانا ہوا، جہاں حال ہی میں آپ کو قضا کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ آپ ماشاءاللہ جید عالم ہونے کے ساتھ بڑے عاجزی اور انکساری والے بھی ہیں، کم عمر ہونے کے باوجود کام کرنے کا حوصلہ بہت ہے، یہی وجہ ہے کہ صرف ازدواجی مقدمات کے ساتھ ساتھ ترکہ اور معاملات کے مقدمات بھی قبول کررہے ہیں اور بڑی جانفشانی سے اسے حل کرنے کی کوشش بھی کررہے ہیں۔ اللہ تعالٰی انہیں مزید حوصلہ عطا فرمائے اور ان سے مظلوموں کی امداد کا کام لے لے۔ آمین

عشاء کے بعد محلے کے ساتھیوں سے ہی ملاقات اور بات چیت رہی۔ کھانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی، لیکن اس کے باوجود ساتھیوں نے اصرار کرکے اچھے خاصے ڈنر کا نظم کردیا۔ کھانے سے فراغت کے بعد کچھ دیر چہل قدمی کی پھر بستر پر دراز ہوگئے۔

دوسرا دن جنتور میں
دوسرے دن نماز فجر کے بعد کچھ دیر آرام کرنے اور ناشتہ کے فوراً بعد جنتور جانا طے تھا، لیکن جماعت پنجم تک رفیق درس رہے مولوی توصیف بیتی سے پربھنی کے مشہور علاقے اپنا کارنر پر ملاقات کی وجہ سے کچھ تاخیر ہوگئی، مولوی توصیف کی خوشی ومسرت قابل دید تھی، اللہ کا بندہ یہ چاہتا تھا کہ کہاں بٹھائے اور کیا کھلا دے؟ چونکہ ہم لوگوں کو بذریعہ بائک ہی جنتور جانا تھا، اس لیے مولوی توصیف نے اپنی بائک ہم لوگوں کو دے دی کہ راستہ طویل ہے۔ اس لیے یہ اچھی بائک لے کر جائیں۔ چنانچہ ہم لوگ ان کی بائک لے کر جنتور کے لیے نکل پڑے، پربھنی سے جنتور تقریباً پینتالیس کلومیٹر ہے۔ اور راستہ بھی بعض جگہوں پر زیر تعمیر ہے۔ سیمنٹ روڈ کا ماشاءاللہ معیاری کام ہورہا ہے۔ لیکن جگہ جگہ تعمیر کی وجہ سے سفر میں کچھ دیر ہوگئی۔ اس دوران بار بار جنتور کے ساتھی اور رفیق درس مولوی مسیب ملی اور مولوی عرفان ملی صاحبان کا فون آتا رہا کہ کب پہنچ رہے ہیں؟ دارالعلوم محمودیہ جنتور سے عربی چہارم کرنے بعد معہد ملت میں پنجم میں ان کا داخلہ ہوا تھا۔ لہٰذا تین سال یہ حضرات ہمارے رفیق درس رہے۔ فی الحال دونوں حضرات جنتور کی بڑی مسجدوں میں امام ہیں، اپنی صلاحیت اور فعالیت کی وجہ سے ان دونوں کا شمار جنتور کے نمایاں علماء کرام میں ہوتا ہے۔

یہاں اس بات کا اظہار بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے ہمیں بہترین رفقاء درس جیسی بڑی نعمت سے بھی نوازا ہے۔ ہر ہر رفیق خواہ وہ مالیگاؤں کا ہو یا بیرون کا۔ ایک دوسرے کا معاون اور محب ہے۔ بندہ کی ٹوٹی پھوٹی خدمات کی ہر دم سراہنا کرنے حوصلہ افزائی کرنے کے ساتھ ساتھ دعائیں بھی دیتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جنتور کے ساتھی فجر بعد سے ہمارے سراپا منتظر تھے۔

جب ہم لوگ جنتور پہنچے تو مولوی مسیب بائک لے کر شہر کنارے ہماری رہنمائی کے لیے موجود تھے، چنانچہ ان کی رہنمائی میں مولوی عرفان ملی کے مکان کے قریب کی مسجد پہنچے جہاں پہلے ہی چند علماء کرام مولوی انیس ملی اور مولوی عبدالحفیظ ملی وغیرہ ہمارے منتظر تھے۔ چنانچہ مسجد میں فریش ہونے کے بعد ہم لوگ مولوی عرفان کے مکان پر پہنچے جہاں انہوں نے بھی پُرتکلف ظہرانے کا اہتمام کیا تھا۔ اس سے فراغت کے بعد مولانا زکریا ابن مولانا عبدالجلیل تابش صاحب ملی سے ان کے مکان پر ملاقات ہوئی، مولانا ایک اسکول مدرس ہونے کے ساتھ ساتھ دینی وملی کاموں میں بھی بڑے فعال ہیں، ملی فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام علاقے میں مختلف پروگرام کرواتے رہتے ہیں، جن میں عقائد کے باب میں مختلف عنوانات پر پروگرام ہوئے ہیں، ہم لوگوں نے جس وقت ان سے ملاقات کی ان کے دولت کدہ پر ملکی سطح کے مشہور نعت خواں مفتی طارق جمیل صاحب قاسمی بھی تشریف رکھتے تھے، چنانچہ ان سے بھی تعارف اور ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ جنتور واطراف میں ان کے کئی پروگرام طے تھے۔

ان حضرات سے رخصت ہونے کے بعد ہم لوگوں نے جامعہ احیاء العلوم کی مسجد میں نماز ظہر ادا کی۔ اس کے بعد معہد ملت کے ایک مایہ ناز فرزند حضرت مولانا عبدالجلیل تابش صاحب ملی سے ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی۔ مولانا جید عالم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے شاعر بھی ہیں، بڑی کامیابی کے ساتھ لڑکیوں کا مدرسہ چلا رہے ہیں جس میں بخاری شریف تک کی تعلیم کا اچھا نظم ہے، آپ خود ہی بخاری شریف کا درس بھی دیتے ہیں۔ مدرسہ کی ذمہ داریوں کے ساتھ آپ مختلف ملی اور سماجی کام بھی کرتے ہیں، جمعیت علماء کے پلیٹ فارم سے بھی آپ کی خدمات کا سلسلہ جاری ہے۔ مولانا نے اپنے رفقاء کے ساتھ بڑی حکمت عملی سے مراٹھواڑہ میں اٹھنے والے ایک بڑے فتنہ کو نہ صرف سرد کیا بلکہ اسے ایسا رُخ دے دیا کہ اب آئندہ اس کے سر ابھارنے کا اندیشہ ہی نہیں رہا۔ کچھ دیر آپ سے علمی گفتگو ہوئی اور اس بات سے بھی بڑی مسرت ہوئی کہ مولانا ہمارے جوابات پڑھتے رہتے ہیں۔ جس پر آپ نے دعاؤں سے بھی نوازا۔ رخصت کے وقت آپ نے اپنی چند تصانیف ہمیں تحفۃً عنایت فرمائی۔ اللہ تعالٰی ان کا سایہ عافیت کے ساتھ تادیر قائم رکھے۔

یہاں سے نکلنے بعد اب ہمیں بغرض تفریح جنتور سے پندرہ کلومیٹر دور ایلدری ڈیم جانا تھا۔ راستہ بہت اچھا تھا اور اس کے کناروں پر درختوں نے اسے مزید خوشگوار بنا دیا تھا۔ چنانچہ دیکھتے دیکھتے یہ راستہ طے ہوگیا۔ ایلدری ڈیم کافی وسیع وعریض ہے۔ تاحد نظر پانی ہی پانی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ ڈیم کئی کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے اور یہیں سے پربھنی کے لیے بھی پانی پہنچایا جاتا ہے۔ ہم لوگوں نے یہاں باقاعدہ غسل تو نہیں کیا لیکن کافی دیر تک جھرنے کی شکل میں گرنے والے صاف شفاف اور ٹھنڈے پانی سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ پھر پہاڑی جیسے راستے پر چلتے ہوئے ڈیم کی کھڑکیوں تک پہنچ گئے۔ یہاں کا منظر بڑا ہی خوبصورت تھا۔ جسے کیمرے میں قید کیا گیا۔ یہاں سے نکلنے کے بعد جنتور پہنچے تو مغرب کا وقت ہونے والا تھا۔ چنانچہ بندہ نے مولوی مسیب کی مسجد میں نماز مغرب ادا کی، اور ان کی مسجد کے صدر صاحب (چیف ٹرسٹی) سے ملاقات ہوئی، معلوم ہوا کہ آپ علماء سے بڑی محبت رکھنے والے اور ان کے بڑے قدر دان ہیں، اور سید القوم خادمھم کی عملی تفسیر ہیں، یعنی چیف ٹرسٹی ہونے کے باوجود مسجد کے لیے مالیات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ بوقت ضرورت اذان دینے اور مسجد کی صاف صفائی کی ذمہ داری بھی بحسن وخوبی انجام دیتے ہیں، ان سے دعا سلام کے بعد ہم لوگ دارالعلوم محمودیہ پہنچے جہاں ناظم مدرسہ حضرت مولانا تجمل خان صاحب ملی سے مدرسہ کی آفس میں ملاقات ہوئی، مولانا میں بڑی عاجزی انکساری ہے۔ جنتور کے تقریباً تمام علماء ان کے براہ راست یا بالراست شاگرد ہیں۔ اور آپ سب کو لے کر چلتے ہیں۔ دارالعلوم محمودیہ معہد ملت کی شاخ ہے جس میں عربی چہارم تک تعلیم کا اچھا نظم ہے۔ اور یہاں سے تقریباً ہر سال معہد ملت کے لیے طلبہ فراہم کیے جاتے ہیں۔ اس بات کا پہلے سے کوئی علم اور اندازہ نہیں تھا کہ یہاں اساتذہ اور طلباء میں باقاعدہ تقریر کرنے کی نوبت آئے گی، لیکن مولانا کے حکم پر چند بے ربط سی باتیں محنت، اور موبائل کے مثبت استعمال پر علماء وطلباء کے درمیان کہی گئی۔ اس کے بعد کچھ دیر مولانا اور چند علماء کرام سے حالات حاضرہ پر مذاکرہ ہوا۔ جس سے اس بات کا بھی علم ہوا کہ جنتور شہر ماشاءاللہ امن کا گہوارا ہے۔ مسلمان اکثریت میں ہونے کے باوجود 1992 کے بعد سے اب تک یہاں فرقہ وارانہ فسادات نہیں ہوئے ہیں۔ یہاں علماء کرام بھی الحمدللہ بڑے فکرمند اور فعال ہیں، آئے دن شہریان کے اعمال وعقائد کی درستگی کے لیے مختلف پروگرامات ہوتے رہتے ہیں۔ بڑے بڑے علماء کی آمد کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ مدرسہ میں دارالقضاء کا نظام بھی ہے جس کی ذمہ داری مفتی مصدق صاحب قاسمی بحسن وخوبی انجام دے رہے ہیں۔

ان حضرات سے دعاؤں کے ساتھ رخصت ہونے کے بعد ہم لوگ مولوی مسیب کے مکان پر پہنچے، جہاں عشائیہ کا نظم تھا جس میں بھی انواع واقسام کے کھانے اور پھل موجود تھے۔ مسجد ومدرسہ میں خدمت انجام دینے والوں کی مالی حالت کیا ہوتی ہے؟ اس کا ہم سب کو بخوبی علم ہے، لیکن ان کی محبتیں اور خلوص تھا کہ انہوں نے ہمارے اکرام میں ایک بہترین عشائیہ کا اہتمام کیا تھا۔ یہاں پر ہمارے دارالافتاء واٹس اپ گروپ سے استفادہ کرنے والے مولانا مقصود ملی اور حافظ جمیل وغیرہ سے بھی ملاقات ہوئی اور کھانے کے دوران علمی گفتگو بھی ہوتی رہی۔ الحمدللہ سب نے فقہ وفتاوی کے ذریعے ہورہی خدمات کی بڑی سراہنا اور حوصلہ افزائی فرمائی۔ جنتور میں علماء اور عوام کی ایک معتد بہ تعداد ہمارے جوابات سے مستفید ہوتے ہیں۔ اخیر میں شہر کے کنارے ایک ہوٹل پر انتہائی لذیذ گُڑ کی چائے نوش کی گئی، اس کے بعد یہاں رخصت کے لیے آنے والے تقریباً دس ساتھیوں سے دعا وسلام کے بعد رخصت ہوئے۔ پربھنی تقریباً گیارہ بجے پہنچے، بائک کے سفر کی وجہ سے تھکن کافی تھی، اس لیے جلد ہی بستر پر چلے گئے۔

تیسرا اور آخری دن
شیڈول تو یہی تھا کہ تیسرے دن ناندیڑ جانا ہے۔ لیکن جنتور کا ہی سفر ایسا پُرلطف رہا کہ پھر ناندیڑ جانے کی کوئی خاص خواہش نہیں رہی۔ پھر جنتور کے سفر میں ڈیم کی سیر میں بھی کافی تھکان ہوگئی تھی جس کی وجہ سے طبیعت میں بوجھل پن تھا اور بند کی وجہ سے ناندیڑ کے حالات سے بھی کچھ اندیشہ تھا، لہٰذا ناندیڑ کا سفر موقوف کردیا گیا۔ ناندیڑ میں ہمارے منتظرین میں مولوی فرقان ملی، مفتی طالب العمودی اور جلال انجینئر صاحب تھے، جنہیں اس کی اطلاع دی گئی تو انہوں نے حالات کو سمجھتے ہوئے معذرت قبول کرلی۔

اب یہ تیسرا دن پربھنی میں ہی گزارنا تھا۔ لہٰذا فجر کی نماز کے بعد تفریح کے لیے رحیم نگر کے قریب ہی ایک گارڈن (چمن) میں گئے، جو کافی وسیع وعریض ہے۔ جس میں فجر کے بعد ہندو مسلم دونوں کی ایک بڑی تعداد تفریح اور ورزش کے لیے آتی ہے۔ یہاں واکنگ کے ساتھ ساتھ ورزش کے کچھ سامان بھی ہیں، نیز بچوں کے کھیلنے کے لیے بھی جھولے وغیرہ ہیں، جنہیں عوام بڑے سلیقے سے استعمال کرتے ہیں، یہاں اس بات کا بڑا احساس ہوا کہ ایک ہمارا شہر بھی ہے جہاں کی آبادی پربھنی سے زیادہ ہے، اور ٹیکس بھی بڑی مقدار میں ادا کیا جاتا ہے، لیکن اس کے باوجود ہم لوگ ایسے تفریحی مقامات سے محروم ہیں۔ یہاں سے واپسی کے بعد مفتی صغیر صاحب کے مکان پر ناشتہ ہوا اور کچھ دیر گفتگو کے بعد ہم لوگ ظہر تک کے لیے بستر پر چلے گئے۔ ظہر کے بعد رحیم نگر کے ایک انتہائی مخلص ساتھی عزت بھائی نے اپنے مکان پر انتہائی شاندار ظہرانہ کا نظم کیا تھا۔ عزت بھائی سراپا مخلص اور علماء کے لیے دل وجان لگا دینے والے آدمی ہیں، معہد ملت کے اساتذہ میں مفتی حامد ظفر صاحب سے لے کر قاضی صاحب تک اور مفتی حسنین صاحب سے لے کر مولانا زبیر صاحب تک سب کی خدمت کرنے کی سعادت انہیں حاصل ہے۔ اللہ تعالٰی ان کی خدمات کو قبول فرمائے اور ان کی مغفرت کا ذریعہ بنادے۔ آمین

بقیہ دن چند متعلقین سے ملاقات، بازار کی سیر اور خریدی میں گزرا۔ پھر رات کا کھانا گجراتی بھائیوں کی ایک عالیشان ہوٹل میں باسط سر کی طرف سے تھا۔ جو ماشاءاللہ سبکدوش فوجی ہیں۔ کھانے سے فراغت کے بعد ہم لوگ مسجد کے حجرے میں آگئے، جہاں محلے کے کئی ساتھی جمع ہوگئے۔ اور کافی دیر تک دینی مسائل پر گفتگو اور سوالات کا سلسلہ جاری رہا۔ اور یہ پربھنی میں ہمارے آخری لمحات تھے۔

بڑی ہی ناسپاسی ہوگی کہ اگر رحیم نگر کے ان مصلیان اور نوجوانوں کا ذکر اور ان کا شکریہ ادا نہ کیا جائے جو ہر طرح کی خدمت کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے۔ جب موقع ملتا چائے ناشتے کے لیے پوچھنے آتے۔ اور یہ چاہتے کہ ہم لوگ انہیں کچھ نہ کچھ خدمت کا موقع ضرور دیں۔ ٹرین رات میں دو بجے ہونے کی وجہ سے چند ساتھی اس وقت تک ہمارے ساتھ رکے رہے، اور ٹرین میں ہماری سیٹ پر بٹھاکر جب یہ حضرات رخصت ہورہے تھے تو اس سفر میں ہماری ہر طرح سے خدمت کرنے والے تمام ہی متعلقین کے لیے جسم کا روم روم شکر کے جذبات سے لبریز تھا اور آنکھیں چھلک پڑنے کو تھیں۔ اللہ تعالٰی ان سب کی علماء کے تئیں عقیدت ومحبت کو قبول فرمائے اور ان کی جائز تمناؤں حاجتوں مرادوں کو پورا فرمائے۔

قلبی تاثرات
اپنی شدید مصروفیات کی بناء پر باقاعدہ روداد لکھنے کا ارادہ تو نہیں تھا، البتہ اس بات کا عزم ضرور تھا کہ دین کی محبت میں ہماری خدمت کرنے والوں کا شکریہ تحریر میں ضرور کیا جائے گا۔ لیکن پھر ذہن میں آیا کہ اس سفر میں کافی کچھ مشاہدات اور تجربات ہوئے ہیں، لہٰذا انہیں لکھا جائے تاکہ قارئین کو اس کا کسی نہ کسی درجہ میں فائدہ ہو اور ایک مختصر سے سفرنامہ سے متعلقین محظوظ بھی ہوں۔ اس سفر سے بہرحال اس بات کا بالکل واضح طور پر مشاہدہ ہوا کہ بندہ اخلاص اور لگن کے ساتھ دین کا کام کرتا رہے تو اللہ تعالیٰ اسے آخرت کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی عزتوں سے نوازتے ہیں، لہٰذا قارئین اس سبق کو ضرور پیشِ نظر رکھیں۔

اللہ تعالٰی ہم سب کو اخلاص اور مستقل مزاجی کے ساتھ دین کا کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

6 تبصرے:

  1. سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے

    ہزارہا شجر سایہ دار راہ میں ہے

    جواب دیںحذف کریں
  2. ماشإاللہ بہت ہی اچھے انداز میں تحریر فرمایا پڑھتے ہوۓ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ہم بھی سفر میں ہیں
    اللہ تعالی قبول فرماۓ دنیاآخرت میں کامیابی و کامرنی کا ذریعہ بناۓ آمین

    جواب دیںحذف کریں
  3. انصاری محمود24 نومبر، 2021 کو 12:24 AM

    ماشاء الله بہت خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے.
    محترم عبداللہ ثاقب صاحب نے سچ کہا جیسے ہم آپ کے ساتھ موجود تھے.
    اللّٰہ پاک ہمیں بھی آپ کی قربت نصیب فرمائے.
    آمین یا رب العالمین

    جواب دیںحذف کریں
  4. ماشاءاللہ بہت خوب
    اللہ تعالیٰ مزید زور قلم عطاء فرمائے اور دین کی نسبت پر پورے عالم کے سفر کو قبول فرمائے آمین

    جواب دیںحذف کریں