منگل، 2 نومبر، 2021

مسجد کے کنویں میں مرا ہوا کتا ملے تو؟

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ شہر کی ایک مسجد میں آج اعلان ہوا کہ تین دن کی نمازیں دوہرا لی جائیں، کیوں کہ مسجد کے کنویں میں مرا ہوا کتا ملا ہے جو پھولی ہوئی حالت میں تھا، لیکن کنویں کی جو سائز ہے وہ کافی بڑی ہے، اور پانی کا رنگ بو یا مزا بھی بدلا نہیں ہے۔ ہم نے سنا ہے کہ کنواں دس بائے دس ہو اور اس میں ناپاکی گرجائے تو کنواں ناپاک نہیں ہوگا، آپ سے درخواست ہے کہ اس مسئلہ میں رہنمائی فرمائیں کیوں کہ اس مسجد سے دیگر مسجدوں کے ائمہ بھی وضو کرکے جاتے ہیں۔ ان کی نمازوں کا کیا ہوگا؟
(المستفتی : محمد مصطفی، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : احناف کے یہاں ٹھہرا ہوا پانی خواہ تالاب کا ہو یا کنویں کا، سوئمنگ پول کا ہو یا ٹنکی کا۔ سب کا ایک ہی حکم ہے۔ یعنی کنویں کا حکم علحدہ نہیں ہے، اس کی تائید میں چند اکابر مفتیان کرام کے فتاوی ملاحظہ فرمائیں :

مفتی اعظم مفتی کفایت اللہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
جب پانی کی سطح کا رقبہ سو ذراع (ایک ذراع ۱۱۹ انچ کا) سے کم نہ ہو تو وہ باؤلی دہ در دہ یعنی حوض کبیر کے حکم میں ہے۔ (کفایت المفتی : ٢/٢٩٤)

حضرت مولانا سید زوار حسین تحریر فرماتے ہیں :
کنوئیں کا پانی : کنوئیں سے مراد یہاں وہ کنواں ہے جو دہ در دہ (۱۰ ×۱۰) سے کم ہو اور جو کنواں دہ در ہو وہ نجاست کے واقع ہونے سے ناپاک نہیں ہوتا جب تک کہ اس کے پانی کی کوئی صفت یعنی رنگ یا بو یا مزہ نہ بدل جائے۔ چھوٹا  دہ در دہ  سے کم کنواں ہمارے ائمہ کے نزدیک چھوٹے حوض کے حکم میں ہے پس جن چیزوں کے گرنے سے چھوٹے حوض کا پانی ناپاک ہوجاتا ہے انہی چیزوں کے کنوئیں میں گرجانے سے کنوئیں کاپانی بھی ناپاک ہو جاتا ہے۔ (بحر) دہ در دہ یا اس سے بڑا کنواں یعنی جس کا محیط اڑتالیس گز شرعی ہو بڑے حوض کے حکم میں ہے۔ (عمدۃ الفقہ : ٣٩٠)

مفتی عبدالرحیم صاحب لاجپوری رقم طراز ہیں :
کنواں شرعی حوض  کی طرح دہ در دہ نہ ہو تو عورت کے گر کر مر جانے سے پانی ناپاک ہوجائے گا اور اگر دہ در دہ ہوتو پانی ناپاک نہ ہوگا۔ ہاں اگر خون وغیرہ ناپاکی کی وجہ سے پانی کا رنگ یا بو یا مزہ بدل جائے تو کنواں ناپاک ہوجائے گا۔ (فتاوی رحیمیہ : ٤/٣٦)

صاحب جامع الفتاویٰ مفتی کوثر صاحب مدنی لکھتے ہیں :
کنویں سے مراد یہاں وہ کنواں ہے جو دہ در دہ (۱۰ ×۱۰) سے کم ہو، اور جو کنواں دہ در دہ ہو وہ نجاست کے واقع ہونے سے ناپاک نہیں ہوتا جب تک کہ اس کے پانی کی کوئی صفت یعنی رنگ یا بو یا مزہ نہ بدل جائے۔ چھوٹا دہ در دہ سے کم کنواں ہمارے ائمہ کے نزدیک چھوٹے حوض کے حکم میں ہے پس جن چیزوں کے گرنے سے چھوٹے حوض کا پانی ناپاک ہوجاتا ہے انہی چیزوں کے کنویں میں گرجانے سے کنویں کا پانی بھی ناپاک ہو جاتا ہے۔ (جامع الفتاویٰ : ٤/٣٠١)

معلوم ہوا کہ کنواں بھی اگر دہ در دہ یعنی دس ہاتھ بائے دس ہاتھ ہو تو وہ ماء جاری کے حکم میں ہوتا ہے، جس کا رقبہ موجودہ زمانے کی پیمائش کے اعتبار سے 225 اسکوائر فٹ ہوتا ہے۔ کیونکہ اکثر فقہاء کے نزدیک ذراع (ایک ہاتھ) کی مقدار ڈیڑھ فٹ ہوتی ہے۔ صورت مسئولہ جبکہ کنواں دہ در دہ سے بڑا ہے تو اس میں کُتے کے گر کر مرجانے اور پھول جانے سے بھی کنواں ناپاک نہیں ہوا، کیونکہ پانی کا رنگ بو یا مزا بھی تبدیل نہیں ہوا ہے اور جب پانی ناپاک ہی نہیں ہوا ہے تو تین دن کی نمازوں کے اعادہ کا اعلان کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی اور نہ ہی ان ائمہ کو تشویش میں مبتلا ہونے کی ضرورت ہے جنہوں نے ان دنوں یہاں سے وضو کرکے نماز پڑھائی ہے۔ سب کی نمازیں درست ہوئی ہیں۔

ملحوظ رہنا چاہیے کہ یہ مسئلہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے اس کے اثرات بہت دور تک مرتب ہوں گے، یعنی ہر اس شخص کی نماز اس سے متاثر ہوگی جس نے ان دنوں یہاں سے وضو کیا اور اگر وہ امام ہوتو اس کی اقتداء کرنے والوں کی نماز بھی درست نہ ہوگی، اور ان سب کو اپنی نماز کا اعادہ کرنا پڑے گا۔ لہٰذا مکمل تحقیق کے بغیر ایسے مسائل بیان کردینا لوگوں کو بڑی تنگی میں ڈال دینا ہے جس سے آئندہ احتیاط لازم ہے۔

قَال الْحَنَفِيَّةُ : إِنَّ الْبِئْرَ الصَّغِيرَةَ وَهِيَ مَا دُونَ عَشَرَةِ أَذْرُعٍ فِي عَشَرَةٍ  يَنْجُسُ مَاؤُهَا بِوُقُوعِ نَجَاسَةٍ فِيهَا، وَإِنْ قَلَّتِ النَّجَاسَةُ مِنْ غَيْرِالأَْرْوَاثِ كَقَطْرَةِ دَمٍ أَوْ خَمْرٍ۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ : ٤٠/١٨٢)

عَنْ راشِدِ بْنِ سَعْدٍ قالَ : قالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ : الماءُ لا يُنَجِّسُهُ شَيْءٌ، إلّا ما غَلَبَ عَلى لَوْنِهِ أوْ طَعْمِهِ أوْ رِيحِهِ۔ (شرح معانی الآثار، رقم : ٣٠)

وَإِنَّمَا يُنَجَّسُ مَاءُ الْبِئْرِ كُلُّهُ بِقَلِيلِ النَّجَاسَةِ؛ لِأَنَّ الْبِئْرَ عِنْدَنَا بِمَنْزِلَةِ الْحَوْضِ الصَّغِيرِ تَفْسُدُ بِمَا يَفْسُدُ بِهِ الْحَوْضُ الصَّغِيرُ إلَّا أَنْ يَكُونَ عَشْرًا فِي عَشْرٍ كَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خان۔ (البحر الرائق : ١/١١٦)

فَصْلٌ فِي الْبِئْرِ (إذَا وَقَعَتْ نَجَاسَةٌ) لَيْسَتْ بِحَيَوَانٍ وَلَوْ مُخَفَّفَةً أَوْ قَطْرَةَ بَوْلٍ أَوْ دَمٍ أَوْ ذَنَبَ فَأْرَةٍ لَمْ يُشَمَّعْ، فَلَوْ شُمِّعَ فَفِيهِ مَا فِي الْفَأْرَةِ (فِي بِئْرٍ دُونَ الْقَدْرِ الْكَثِيرِ) عَلَى مَا مَرَّ، وَلَا عِبْرَةَ لِلْعُمْقِ عَلَى الْمُعْتَمَدِ (قَوْلُهُ عَلَى مَا مَرَّ) أَيْ مِنْ أَنَّ الْمُعْتَبَرَ فِيهِ أَكْبَرُ رَأْيِ الْمُبْتَلَى بِهِ أَوْ مَا كَانَ عَشْرًا فِي عَشْرٍ۔ (شامی : ١/٢١١)

وَفِي الْمُثَلَّثِ مِنْ كُلِّ جَانِبٍ خَمْسَةَ عَشَرَ وَرُبُعًا وَخُمُسًا بِذِرَاعِ الْكِرْبَاسِ، وَلَوْ لَهُ طُولٌ لَا عَرْضٌ لَكِنَّهُ يَبْلُغُ عَشْرًا فِي عَشْرٍ جَازَ تَيْسِيرًا ۔۔۔۔ كَأَنْ يَكُونَ طُولُهُ خَمْسِينَ وَعَرْضُهُ ذِرَاعَيْنِ مَثَلًا فَإِنَّهُ لَوْ رَبَّعَ صَارَ عَشْرًا فِي عَشْرٍ۔ (شامی : ١/١٩٣)

وَالْمُعْتَبَرُ ذِرَاعُ الْكِرْبَاسِ. كَذَا فِي الظَّهِيرِيَّةِ وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى. كَذَا فِي الْهِدَايَةِ وَهُوَ ذِرَاعُ الْعَامَّةِ سِتُّ قَبَضَاتٍ أَرْبَعٌ وَعِشْرُونَ أُصْبُعًا. كَذَا فِي التَّبْيِينِ وَإِنْ كَانَ الْحَوْضُ مُدَوَّرًا يُعْتَبَرُ ثَمَانِيَةٌ وَأَرْبَعُونَ ذِرَاعًا. كَذَا فِي الْخُلَاصَةِ وَهُوَ الْأَحْوَطُ. كَذَا فِي مُحِيطِ السَّرَخْسِيِّ۔ (الفتاویٰ الہندیہ : ۱/۱۸)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
26 ربیع الاول 1443

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں