اتوار، 21 نومبر، 2021

گراؤنڈ فلور کے بجائے فرسٹ فلور پر جماعت خانہ بنانا

سوال :

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس سوال کے جواب میں کہ ایک تین منزلہ مسجد ہے۔ اس مسجد میں امام کس منزل پر ہو؟ گرانڈ فلور پر یا دوسری منزل (پہلے مالے) پر، فی الحال امام صاحب فرسٹ فلور (پہلے مالے) پر سے امامت کرتے ہیں اور اکثر اوقات گراونڈ فلور خالی رہتا ہے۔ اب جواب طلب امر یہ ہے کہ اس میں مستحب کیا ہے؟ کہ امام کہاں سے نماز پڑھائے، افضل اور مستحب کہاں سے پڑھانا ہے؟ جواب عنایت فرما کر عند اللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : عقیل احمد ملی، سردار نگر، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر مسجد کی تعمیر کے وقت ہی کسی ضرورت یا مصلحت کے تحت جماعت خانہ فرسٹ فلور (پہلے منزلہ) پر بنا دیا جائے تو اس میں کوئی قباحت اور کراہت نہیں ہے۔ خواہ مصلیان کی کمی کی وجہ سے بعض مرتبہ گراؤنڈ فلور خالی کیوں نہ رہ جائے۔ نیز اس میں استحباب اور غیر استحباب کا بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

اسی نوعیت کے ایک سوال کے جواب میں مفتی دارالافتاء جامعہ قاسمیہ شاہی مراد آباد مفتی سلمان صاحب منصور پوری لکھتے ہیں :
مسجد کی زمین نیچے سے لے کر اوپر تک سب مسجد کے حکم میں ہی رہتی ہے، لہٰذا اگر مصلحۃً زمین کی سطح کے اوپر کے حصہ میں باقاعدہ جماعت خانہ بنالیا جائے اور مستقل وہیں جماعت ہوا کرے، تو اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں، اور فقہاء نے اوپر کے حصہ میں نماز سے جو منع کیا ہے، وہ اس صورت میں ہے جبکہ دوسری منزل کو باقاعدہ جماعت خانہ نہ بنایا گیا ہو۔ (امداد الاحکام ۲؍۵۳)
تاہم جو شخص نچلے حصہ میں نماز پڑھے گا، اس کی بھی نماز درست ہوجائے گی، گو کہ وہ امام سے قریب ہونے کے ثواب سے محروم رہے گا۔ اور امام صاحب کا یہ کہنا کہ جو شخص اوپر والی منزل میں جگہ رہتے ہوئے نیچے والی منزل میں نماز پڑھے گا اس کی نماز صحیح نہیں ہوگی، غلط ہے۔ ایسے شخص کی بھی نماز شرعاً ہوجائے گی۔ (کتاب النوازل : ٤/٢٧٢)

عن صالح مولی التوأمہ أنہ رأی أبا ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ یصلي فوق ظہر المسجد بصلاۃ الإمام في المسجد۔ (السنن الکبریٰ للبیہقي ۴؍۲۷۷ رقم: ۵۳۴۶)

وحاصلہ أن شرط کونہ مسجداً أن یکون سفلہ وعلوہ مسجداً لینقطع حق العبد عنہ لقولہ تعالیٰ : (وَاَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلّٰہِ) ۔(البحرالرائق : ۵؍۲۵۱)

ولہٰذا یصح اقتداء من علی سطح المسجد بمن فیہ إذا لم یتقدم علی الإمام۔ (شامي : ۲؍۴۲۸ زکریا)

وکذا لو صلی علی سطح المسجد مقتدیا بإمام في المسجد تجوز صلاتہ؛ لأن غالب سطح المسجد لا یخلو عن کوۃ ومفصل ومنفذ فصار کحائط بینہ وبین الإمام علیہ باب، ہٰذا إذا کان مقامہ خلف الإمام أو علی یمینہ أو علی یسارہ، فأما إذا کان أمام الإمام أو بإزائہ فوق رأسہ، لا یجوز وہو المنقول عن أصحابنا۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۲؍۲۶۶ رقم: ۲۳۸۵ زکریا)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
15 ربیع الآخر 1443

2 تبصرے: