ہفتہ، 27 نومبر، 2021

کیا عدت میں پردہ کا کوئی خاص حکم ہے؟

سوال :

عدت کے پردہ اور عام پردہ میں کیا فرق ہے؟ اگر نہیں تو عموماً لوگ عدت کے دنوں میں پردہ کی سختی کرتے ہیں اور عام دنوں میں نہیں تو یہ فرق کس حد تک درست ہے؟ بینوا و توجروا۔
(المستفتی : شمس العارفین، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : عدت اور غیر عدت دونوں میں عورت کے لیے پردے کے احکام یکساں ہیں۔ یعنی عام دنوں میں جن لوگوں سے پردہ کا حکم ہے عدت میں بھی ان سے پردہ کیا جائے گا اور جن لوگوں سے عام دنوں میں پردہ نہیں ہے ان سے عدت میں بھی پردہ نہیں ہوگا۔ لہٰذا عدت میں پردے کا کوئی خاص حکم سمجھنا درست نہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ عدت میں نامحرموں سے جو پردے کا اہتمام کیا جاتا ہے وہ بھی ختم کردیا جائے۔ بلکہ عام دنوں میں جو بے احتیاطی ہوتی ہے اس پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

اسی طرح یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ ایسے نامحرم جن کے بارے میں شریعت نے کچھ گنجائش رکھی ہے مثلاً دیور، جیٹھ اور نند کے بچے جن کی آمدورفت گھر میں زیادہ ہو اور ان سے فتنے کا اندیشہ بھی نہ ہوتو عدت کی مدت میں اُن کے سامنے چہرہ اور ہتھیلیاں کھولنے کی گنجائش ہے۔ البتہ سر کے بال اور بدن کے دیگر اَعضاء اُن کے سامنے ظاہر کرنا جائز نہیں ہے۔ اور اگر ان سے فتنہ کا اندیشہ ہوتو ان سے چہرہ سمیت مکمل پردہ کیا جائے گا۔ اس مسئلہ کے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جن لوگوں کے بارے میں شریعت نے کچھ گنجائش رکھی ہے ان کے بارے میں بہت زیادہ سختی سے کام لینے کی ضرورت نہیں ہے کہ لوگوں کو تنگی محسوس ہونے لگے۔ اور آپ کے سوال کی منشاء بھی غالباً یہی ہے اس لیے اس کی وضاحت کردی گئی۔

قال اللّٰہ تعالیٰ : وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِلاَّ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُيُوْبِهِنَّ وَلَا يُبْدِيْنَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُوْلَتِهِنَّ۔ (النور، جزء آیت : ۳۱)

وقال اللّٰہ تبارک وتعالیٰ : یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لِاَزْوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَآئِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِہِنَّ، ذٰلِکَ اَدْنَی اَنْ یُعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَ وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَحِیْمًا۔(الأحزاب : ۵۹)

قالَ أبُو بَكْرٍ : فِي هَذِهِ الآيَةِ دَلالَةٌ عَلى أنَّ المَرْأةَ الشّابَّةَ مَأْمُورَةٌ بِسَتْرِ وجْهِها عَنْ الأجْنَبِيِّينَ وإظْهارِ السِّتْرِ والعَفافِ عِنْدَ الخُرُوجِ لِئَلّا يَطْمَعَ أهْلُ الرِّيَبِ فِيهِنَّ۔ (أحکام القرآن للجصاص : ۳/٤٨٦)

(وَتُمْنَعُ) الْمَرْأَةُ الشَّابَّةُ (مِنْ كَشْفِ الْوَجْهِ بَيْنَ رِجَالٍ) لَا لِأَنَّهُ عَوْرَةٌ بَلْ (لِخَوْفِ الْفِتْنَةِ) ۔ وَالْمَعْنَى تُمْنَعُ مِنْ الْكَشْفِ لِخَوْفِ أَنْ يَرَى الرِّجَالُ وَجْهَهَا فَتَقَعُ الْفِتْنَةُ لِأَنَّهُ مَعَ الْكَشْفِ قَدْ يَقَعُ النَّظَرُ إلَيْهَا بِشَهْوَةٍ۔ (شامی : ١/٤٠٦)

فَلَا يَحِلُّ النَّظَرُ لِلْأَجْنَبِيِّ مِنْ الْأَجْنَبِيَّةِ الْحُرَّةِ إلَى سَائِرِ بَدَنِهَا إلَّا الْوَجْهِ وَالْكَفَّيْنِ لِقَوْلِهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى {قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ} [النور: 30]۔ (بدائع الصنائع : ٥/١٢١)
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
21 ربیع الآخر 1443

1 تبصرہ: