منگل، 30 نومبر، 2021

آسیب زدہ کی طلاق کا حکم

سوال :

ایک آدمی نے اچانک بیٹھے بیٹھے اپنی بیوی کو طلاق دے دیا، کچھ بھی معاملہ نہیں ہوا تھا۔ اور اسے طلاق دینا یاد بھی نہیں۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اسکو اثرات تھے۔ جب اسکو حاضر کئے تو بولنے لگا میں رمضان ہوں طلاق میں نے بولا ناکہ شوہر نے، تو طلاق ہوئی یا نہیں؟
(المستفتی : محمد مدثر، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں جو کیفیت بیان کی گئی ہے اگر واقعتاً ایسا ہی تھا کہ بیٹھے بیٹھے بلاوجہ اس آدمی نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی، اور بعد میں اسے طلاق دینا یاد نہیں رہا۔ اور حاضر کرنے پر معلوم ہوا کہ آدمی نے طلاق نہیں دی ہے بلکہ جن نے طلاق دی ہے تو اس بات کا اعتبار کرلیا جائے گا کہ اس پر سوار جن نے طلاق کے الفاظ کہے ہیں، لہٰذا اس حالت میں دی گئی طلاق شرعاً معتبر نہ ہوگی، ان کا نکاح بدستور قائم رہے گا۔

وَلَا يَقَعُ طَلَاقُ الصَّبِيِّ وَإِنْ كَانَ يَعْقِلُ وَالْمَجْنُونُ وَالنَّائِمِ وَالْمُبَرْسَمُ وَالْمُغْمَى عَلَيْهِ وَالْمَدْهُوشُ هَكَذَا فِي فَتْحِ الْقَدِيرِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/٣٥٣)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
24 ربیع الآخر 1443

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں