بدھ، 24 نومبر، 2021

حلالہ سے متعلق ایک وائرل تحریر کا جائزہ

✍️ محمد عامرعثمانی ملی
(امام وخطیب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام ! حلالہ سے متعلق ایک تحریر سوشل میڈیا پر کئی سالوں سے کچھ بیشی کے ساتھ گردش کرتی رہتی ہے۔ فی الحال یہ تحریر مولانا کلیم الزماں بجنوری کے نام سے وائرل ہے، جس پر ان کا نمبر بھی لکھا ہوا ہے۔ چنانچہ جب بندہ نے ان سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ یہ تحریر ان کی نہیں ہے، بلکہ کسی اور نے اس پر ان کا نام اور نمبر ڈال دیا ہے۔ چنانچہ اس پہلی تحقیق میں ہی یہ تحریر شک کے دائرے میں آجاتی ہے۔ لہٰذا جب اس کی مزید تحقیق کی گئی تو مزید غلط باتیں سامنے آئیں۔

سب سے پہلے حلالہ کیا ہے؟ اسے سمجھ لیں تاکہ تمام باتیں بالکل واضح طور پر سامنے آجائے۔ معلوم ہونا چاہیے کہ حلالہ دو طرح کا ہوتا ہے، ایک شرعی حلالہ، دوسرے غیرشرعی حلالہ۔

شرعی حلالہ : شرعی حلالہ کی صورت یہ ہے کہ کسی عورت کو اگر اس کا شوہر تین طلاق دے دے تو وہ طلاق کی عدت گذار ے، طلاق کی عدت یہ ہے کہ اگر عورت کو حیض آتا ہوتو اس کو تین حیض آجائیں، تین حیض چاہے جتنے دنوں میں آئیں تین مہینے میں آئیں یا اس سے کم مدت میں یا اس سے زیادہ مدت میں، تین حیض ہی سے عدت پوری ہوگی، اگر تین حیض آنے سے پہلے عورت نکاح کرے گی تو نکاح صحیح نہ ہوگا اور شرعی حلالہ بھی نہ ہوگا، اور اگر بڑی عمر ہونے کی وجہ سے حیض آنا بند ہوگیا ہو تو اس کی عدت تین مہینے ہے، اور اگر عورت حاملہ ہو تو وضع حمل سے اس کی عدت پوری ہوگی، عورت کی جیسی بھی حالت ہو اس کے مطابق عدت گذارکر یہ عورت بغیرکسی شرط کے کسی سے نکاح کرے، اور وہ شخص اس کے ساتھ رہے صحبت بھی کرے (صحبت کرنا شرط ہے) اس کے بعد اس کا انتقال ہوجائے تو وفات کی عدت پوری کرکے (وفات کی عدت یہ ہے، حمل نہ ہوتو چار مہینے دس دن، حمل ہو تو وضع حمل ہوجائے) یا نباہ نہ ہونے کی صورت میں اپنی مرضی سے طلا ق دے دے تو اوپر درج شدہ طریقہ کے مطابق طلاق کی عدت گذار کر پھر کسی اور سے نکاح کر سکتی ہے، پہلا شوہر نکاح کرنا چاہے تو وہ بھی کرسکتا ہے کہ حلالہ کی صورت عمل میں آچکی ہے، اسی صورت کو قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے۔

فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يَتَرَاجَعَا إِنْ ظَنَّا أَنْ يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ۔ (سورۃ البقرۃ، آیت ٢٣٠)
ترجمہ :  پھر اگر اس عورت کو طلاق دی (یعنی تیسری بار) تو اب حلال نہیں اس کو وہ عورت اسکے بعد جب تک نکاح نہ کرلے کسی خاوند سے اس کے سوا پھر اگر طلاق دے دے دوسرا خاوند تو کچھ گناہ نہیں ان دونوں پر کہ باہم مل جاویں اگر خیال کریں کہ قائم رکھیں گے اللہ کا حکم اور یہ حدیں باندھی ہوئی ہیں اللہ کی بیان فرماتا ہے ان کو واسطے جاننے والوں کے لیے۔

غیرشرعی حلالہ : اگر کسی عورت کو اس کا شوہر تین طلاق دے دے اور وہ اپنی عدت گزار لے۔ اس کے بعد دوسرے شخص سے اس کا نکاح اس شرط پر کیا جائے کہ وہ اسے بعد میں طلاق دے دے، تاکہ پہلا شوہر اس عورت سے نکاح کرلے، تو ایسے حلالہ کے لئے نکاح کرنے والے اور جس کے لئے حلالہ کیا گیا دونوں پر لعنت کی گئی ہے اور یہ عمل حرام ہے، لہٰذا اس سے اجتناب ضروری ہے۔ تاہم اگر ایسا کرلیا گیا تو شرط باطل ہوجائے گی اور یہ نکاح صحیح ہوگا۔ اور دوسرا شوہر اسے طلاق دینے کا پابند نہیں ہوگا۔ لیکن اگر حقوق زوجیت ادا کردینے کے بعد وہ اسے طلاق دے دے، تو عورت عدت گذارکر اپنے پہلے شوہر سے نکاح کرسکتی ہے۔ اور یہ رشتہ ازدواج جائز اور حلال ہوگا۔ اور یہ بات درج ذیل حدیث شریف کی تشریح سے بھی سمجھی جاسکتی ہے۔

لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُحَلِّلَ وَالْمُحَلَّلَ لَهُ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حلالہ کرنے والے اور جس کے لئے حلالہ کیا جائے اس کے اوپر لعنت فرمائی ہے۔ (سنن دارمی، رقم : 116)

حدیث شریف میں اس نکاح کرنیوالےکومحلل (حلال کرنے والا) کہا گیا ہے، اور یہ ایک ظاہر بات ہے کہ کوئی شخص محلل اسی صورت میں ہوگا جب کہ نکاح صحیح ہو، کیونکہ نکاح فاسد سے محلل (حلال کرنے والا) نہیں ہوتا۔

معلوم ہوا کہ اگر یہ نکاح منصوبہ بند طریقہ پر ہوتو یہ سراسر ناجائز اور ملعون عمل ہے، اور اگر اس میں پیسوں کا لین دین بھی ہوتو اس کی قباحت مزید بڑھ جائے گی۔ نیز یہ پیسہ حلالہ کرنے والے کے لیے حرام ہوگا۔

محترم قارئین ! اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ غیرشرعی حلالہ ہوتا ضرور ہے، لیکن ایسی سنگین صورتحال بہرحال نہیں ہے جیسا کہ اس تحریر میں بیان کیا گیا ہے۔ اور جب شریعت نے اس سلسلے میں واضح موقف بیان کردیا ہے اور اسے ناجائز اور ملعون عمل قرار دے دیا ہے تو پھر اگر کوئی یہ عمل کررہا ہے تو اس میں شریعت کا تو کوئی نقص نہیں ہے، اور نہ ہی اس کی وجہ سے پوری قوم پر انگلی اٹھائی جاسکتی ہے۔ ایسے سماج کے ناسور تو ہر جگہ اور ہر مذہب میں ہیں، جو وقتی لذت اور مال کی خاطر اپنے ساتھ ساتھ اپنے مذہب اور قوم کی بھی بدنامی کا ذریعہ بنتے ہیں۔

خلاصہ یہ کہ اس تحریر کی تقریباً تمام باتیں جعلی ہیں، انڈیا ٹوڈے کی تحقیقاتی رپورٹ کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہے، کیونکہ اس تحریر میں جن لوگوں کے نام لکھے ہوئے ہیں وہ سب جعلی ہیں، لہٰذا اس تحریر کو شیئر کرنا قطعاً جائز نہیں ہے۔ کیونکہ یہ جھوٹ پھیلانے کے ساتھ ساتھ غیروں کو ہم پر ہنسنے کا موقع فراہم کرنا ہے۔ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم طلاق کے کانسیپٹ کو خود بھی سمجھیں اور دوسروں کو بھی سمجھائیں۔

اسلام میں طلاق کا تصور یہ ہے کہ جب میاں کے بیوی کے تعلقات اس طرح خراب ہوجائیں کہ اب دونوں کے ساتھ رہنے میں نکاح کا سکون برباد اور ایک دوسرے کے حقوق کو ادا کرنا محال ہوجائے تو ایسے حالات کے لیے طلاق مشروع ہوا ہے۔ لہٰذا ایسے حالات میں صرف ایک طلاق دے کر بھی وہ اپنا مقصد حاصل کیا جاسکتا ہے جسے شریعت کی اصطلاح میں طلاق احسن یعنی سب سے بہتر طلاق کہا گیا ہے۔ طلاق احسن کی صورت یہ ہے کہ آدمی اپنی بیوی کو ایک طلاق پاکی کے ایام میں دے جس میں بیوی سے صحبت نہ کی ہو اور عدت گذرنے تک اسے چھوڑے رکھے۔ چنانچہ جب عدت پوری ہوجائے گی تو بیوی پر ایک طلاق بائن پڑ جائے گی۔ اور وہ اپنے شوہر کے نکاح سے نکل جائے گی۔ اب وہ چاہے تو کہیں اور بھی نکاح کرسکتی ہے۔ اور اگر حالات سازگار ہوجائیں تو سابقہ شوہر سے بھی بغیر حلالہ شرعیہ کے از سر نو نئے مہر کے ساتھ نکاح کرسکتی ہے۔ اگر اس سے پہلے کوئی طلاق نہیں دی گئی ہوتو شوہر کو اب دو طلاق کا اختیار ہوگا۔

بیک وقت تین طلاق دے دینے سے اگرچہ تینوں طلاق نافذ ہوجاتی ہے، لیکن ایسا کرنا شرعاً ناجائز اور گناہ ہونے کے ساتھ ساتھ قانوناً بھی جُرم بن چکا ہے۔ جس کی وجہ سے آدمی شرعی اور قانونی دونوں طرح کی گرفت میں آجائے گا۔ لہٰذا شریعت پر عمل کریں اور ہر طرح کے مسائل سے محفوظ رہیں۔

اللہ تعالٰی ہم سب کو شریعت مطہرہ کی مکمل پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین

6 تبصرے: