جمعرات، 13 جنوری، 2022

کرپٹو کرنسی کا شرعی حکم

سوال :

محترم مفتی صاحب ! کرپٹو کرنسی کے متعلق واضح شرعی حکم کیا ہے؟ اور اس میں اپنا پیسہ لگانا کیسا رہے گا؟
(المستفتی : شیخ صادق، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کرپٹو کرنسی اور بٹ کوائن یہ سب ڈیجیٹل اور فرضی کرنسیاں ہیں، حقیقت میں اس کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ اور نہ ہی کسی حکومت نے اب تک اس کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ ازہر ہند دارالعلوم دیوبند سمیت دنیا بھر کے دارالافتاء سے اس کے ناجائز ہونے کا فتوی دیا گیا ہے۔ ان سب کا خلاصہ درج ذیل ہے :

بٹ کوئن یا کوئی بھی ڈیجیٹل کرنسی، محض فرضی کرنسی ہے، اس میں حقیقی کرنسی کے بنیادی اوصاف وشرائط بالکل نہیں پائی جاتیں۔ اور آج کل بٹ کوئن یا ڈیجیٹل کرنسی کی خرید وفروخت کے نام سے نیٹ پر جو کاروبار چل رہا ہے، وہ محض دھوکہ ہے، اس میں حقیقت میں کوئی مبیع وغیرہ نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کاروبار میں بیع کے جواز کی شرعی شرطیں پائی جاتی ہیں، بلکہ در حقیقت یہ فاریکس ٹریڈنگ کی طرح سود اور جوے کی شکل ہے۔ اس لیے بٹ کوئن یا کسی بھی ڈیجیٹل کرنسی کی خرید وفروخت کی شکل میں انٹرنیٹ پر چلنے والا کاروبار شرعاً حلال وجائز نہیں ہے۔ لہٰذا آپ بٹ کوئن یا کسی بھی ڈیجیٹل کرنسی کے نام نہاد کاروبار میں پیسے نہ لگائیں۔

مزید تفصیل کے لیے مفتی سلمان مظاہری کی تصنیف "بٹ کوائن کی حقیقت اور اس کا شرعی حکم" ملاحظہ فرمائیں۔

قال اللّٰہ تعالی : وأحل اللہ البیع وحرم الربا۔ (البقرة : ۲۷۵)

یٰأیھا الذین آمنوا إنما الخمر والمیسر والأنصاب والأزلام رجس من عمل الشیطن فاجتنبوہ لعلکم تفلحون۔ (المائدة، ۹۰)

وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :إن اللہ حرم علی أمتي الخمر والمیسر۔ (المسند للإمام أحمد ،۲: ۳۵۱، رقم الحدیث : ۶۵۱۱)

﴿وَلَا تَأْکُلُوْا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ﴾ أي بالحرام، یعني بالربا، والقمار، والغصب والسرقة۔ (معالم التنزیل ۲: ۵۰)

لأن القمار من القمر الذي یزداد تارةً وینقص أخریٰ۔ وسمی القمار قمارًا؛ لأن کل واحد من المقامرین ممن یجوز أن یذہب مالہ إلی صاحبہ، ویجوز أن یستفید مال صاحبہ، وہو حرام بالنص۔ (رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة،باب الاستبراء، فصل في البیع، ۹: ۵۷۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)

وقال اللہ تعالی :ولا تعاونوا علی الإثم والعدوان۔ (سورة المائدة، آیت : ۲)۔ (مستفاد : فتوی دارالعلوم دیوبند، رقم الفتوی : 155068)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
08 جمادی الآخر 1443

7 تبصرے:

  1. ماشاء اللہ بہت ہی عمدہ اور بہترین کام کر رہے ہیں ایسے حساس مسائل میں اکابر علماء کے جو فتاویٰ ہیں انکی لنک بھی ویب سائٹ پر شیر کی جائے تو ان مسائل پر بھی ایک نظر ہو جائے

    اللہم زد فزد
    عرفان اشاعتی

    جواب دیںحذف کریں
  2. سنا ہے کہ اب یہ ہندوستان میں لیگل ہوگیا ہے ، اور اس سے خرید وفروخت بھی ہوتی ہے ، اگر ایسا ہو تو کیا حکم ہوگا ؟ یعنی عرف میں ثمن بھی مانا جارہا ہے اور لیگل بھی ہوگیا ( یعنی اس کی ضامن اب ہندوستانی حکومت ہے ) ترشد تؤجر

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. لیگل ہونا الگ اور ضامن ہونا الگ ہے۔ اب تک ہندوستان اس کا ضامن نہیں ہے اور غالباً یہ لیگل بھی نہیں ہوا ہے۔ لہٰذا اب تک یہ ناجائز ہی ہے۔

      واللہ تعالٰی اعلم

      حذف کریں
  3. جزاک اللہ خیرا کثیرا فی الدار اللہ آپکہ علم میں مزید اضافہ فرماے آمین

    جواب دیںحذف کریں