منگل، 25 جنوری، 2022

کمیٹی (بسی) کے ایک طریقہ کی شرعی حیثیت

سوال :

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے متعلق کے ایک بسی ہے۔ ہزار روپیہ مہینہ ہر ممبر کوبھرنا ہے اور جس ممبر کا نمبر نکل جائے چاہے پہلے مہینہ میں ہی کیوں نا ہو اب اسکو آگے بسی نہیں بھرنا ہے۔ کیا اس طرح کی بسی جائز ہے یا نہیں؟ جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : نثار احمد ملی، کامٹی)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور بسی کا طریقہ سراسر قمار اور جوئے پر مشتمل ہے۔

قمار اور جوئے کی حقیقت یہ ہے کہ ہر وہ معاملہ جس میں کسی غیریقینی واقعے کی بنیاد پر کوئی رقم اس طرح داؤ پر لگائی گئی ہو کہ یا تو رقم لگانے والااپنی لگائی ہوئی رقم سے ہاتھ دھو بیٹھے یا اُسے اتنی ہی یا اس سے زیادہ ر قم کسی معاوضہ کے بغیر مل جائے۔

شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مد ظلہم نے "قمار" کی حقیقت درج ذیل الفاظ میں بیان کی ہے :
قمار ایک سے زائد فریقوں کے درمیان ایک ایسا معاہدہ ہے جس میں ہر فریق نے کسی غیریقینی واقعے کی بنیاد پر اپنا کوئی مال(یا تو فوری ادائیگی کرکے یا ادائیگی کا وعدہ کرکے) اس طرح داؤ پر لگایا ہو کہ وہ مال یا تو بلا معاوضہ دُوسرے فریق کے پاس چلا جائے گا یا دُوسرے فریق کا مال پہلے فریق کے پاس بلا معاوضہ آجائے گا۔ (اسلام اور جدید معاشی مسائل، 3/358)

لہٰذا اس بسی میں حصہ لینا اور اس سے فائدہ اٹھانا ناجائز اور حرام ہے۔ کیونکہ اس میں یہ بات موجود ہے کہ ایک ممبر کو اپنی جمع کردہ رقم سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے یا پھر اسے ایک ہی مرتبہ میں دیگر ممبران کے پیسے بھی مل جائیں گے۔

معلوم ہونا چاہیے کہ قمار اور جوئے کی حُرمت خود قرآن کریم میں بیان کی گئی ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے :
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۔ (المائدہ : آیت، 90)
ترجمہ : اے ایمان والو ! شراب، جوا، بتوں کے تھان اور جوئے کے تیر، یہ سب ناپاک شیطانی کام ہیں، لہٰذا ان سے بچو، تاکہ تمہیں کامیابی حاصل ہو۔

لہٰذا جن لوگوں نے اس میں حصہ لے لیا ہے وہ فوراً اپنا معاملہ ختم کریں اور جتنی رقم انہوں نے جمع کی ہے اسی کے بقدر ان کے لیے حلال ہوگی۔ بقیہ رقم ان کے مالکین کو لوٹانا ضروری ہے۔ اور اگر یہ ممکن نہ ہوتو زائد رقم بلانیت ثواب غریبوں میں تقسیم کی جائے گی۔

قال اللّٰہ تعالیٰ : یَسْاَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ قُلْ فِیْہِمَا اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَاِثْمُہُمَا اَکْبَرُ مِنْ نَفْعِہِمَا۔ (البقرۃ، جزء آیت: ۲۱۹)

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَى أُمَّتِي الْخَمْرَ، وَالْمَيْسِرَ۔ (مسند احمد، رقم : ٦٥٦٤)

ثم عرفوہ بأنہ تعلیق الملک علی الخطر والمال في الجانبین۔ (قواعد الفقہ : ۴۳۴)

وَيَرُدُّونَهَا عَلَى أَرْبَابِهَا إنْ عَرَفُوهُمْ، وَإِلَّا تَصَدَّقُوا بِهَا لِأَنَّ سَبِيلَ الْكَسْبِ الْخَبِيثِ التَّصَدُّقُ إذَا تَعَذَّرَ الرَّدُّ عَلَى صَاحِبِهِ۔ (شامی : ٩/٣٨٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
21 جمادی الآخر 1443

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں