ہفتہ، 22 جنوری، 2022

نمازی کے پیر میں بکری کی مینگنی لگی ہوتو نماز کا حکم

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے نمازی کے پیر میں اگر بکری کی ایک لینڈی (غلاظت) لگی ہو اور وہ اسی طرح فرض نماز ادا کرلے تو کیا حکم ہوگا؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : محمد شرجیل، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جن جانوروں کا گوشت حلال ہے تو ان کا پیشاب نجاست خفیفہ کے حکم میں ہے، البتہ ان کا گوبر نجاست غلیظہ ہے۔

نجاست خفیفہ کا حکم یہ ہے کہ کپڑے (مثلاً آستین) کے ربع (چوتھائی) کے مقدار سے کم میں لگا ہوتو یہ اس سے نماز ہوجائے گی۔ اس سے زیادہ کپڑے یا بدن پر لگی ہوتو نماز نہیں ہوگی۔ جبکہ نجاست غلیظہ ایک درہم سے زائد لگی ہوتو نماز نہیں ہوگی۔

جہاں تک درہم کے وزن کا تعلق ہے تو اس میں تفصیل یہ ہے کہ اس مقام پر فقہاء نے صراحت کی ہے کہ درہم سے درہمِ کبیر مراد ہے، جو ۲۰ قیراط کے برابر ہو، حساب سے معلوم ہوا کہ ۲۰ قیراط گراموں کے اعتبار سے 4.374 گرام اور ماشہ کے اعتبار سے 4.5 ماشہ اور رتی کے اعتبار سے 36 رتی بنتے ہیں۔ لہٰذا نجاست کا وزن اگر اس میں مبتلا آدمی کے گمان کے مطابق 4 گرام 374 ملی گرام سے زائد بن رہا ہو تو اس پر نماز نہیں ہوگی، اور اگر اس سے کم ہوتو نماز ہوجائے گی۔

صورتِ مسئولہ میں چونکہ بکری کی ایک عدد مینگنی مذکورہ وزن یعنی 4.374 گرام تک نہیں پہنچتی، لہٰذا اس کے پیر میں لگے ہونے سے نماز ہوجائے گی، نماز کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔ تاہم اس کا علم ہونے کے باوجود اسے دھوئے بغیر اسی حالت میں نماز پڑھ لینا مکروہ تحریمی ہے۔

لمافی المحیط البرھانی (۳۷۱/۱) کتاب الطھارۃ/الفصل السابع الخ /النوع الثانی، ادارۃ القران والمجلس العلمی: ۷۵۵۔ یجب ان یعلم بان القلیل من النجاسۃ عفو عندنا لما روی عن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سئل عن قلیل النجاسۃ فی الثوب فقال: اذا کان ظفری ھذا لا یمنع جواز الصلوۃ … فالغلیظۃ: اذا کانت قدر الدرھم او اقل، فھی قلیلۃ لاتمنع جواز الصلوۃ … ویعتبر الدرھم الکبیر، دون الدرھم الصغیر۔
قال محمد رحمہ اللہ تعالیٰ فی ”الجامع الصغیر“ الدرھم الکبیر اکبر ما یکون من الدراھم، ولم یبین انہ اراد بہ الکبیر من حیث العرض والمساحۃ او من حیث الوزن، وزکر فی النوادر ان الدرھم الکبیر اکبرما یکون من الدراھم، کالدراھم الزبر قانیۃ درھم اسود کبیر، ضربہ الزبرقان۔

۷۵۷۔ وقال فی موضع آخر الدرھم الکبیر ما یکون عرض الکف کالدرھم الشھلیلی وھذا اعتبار التقدیر من حیث العرض۔ ومن المشائخ من قال: انما یعتبر اکبر ما یکون من الدراھم من نقودزمانھم۔ اما ما کان من النقود وانقطع لا یعتبر وذکر فی کتاب الصلوۃ واعتبر الکبیر من حیث الوزن

۷۵۸۔ قال الشیخ ابو جعفر رحمہ اللہ: یوفق بین الفاظ محمد رحمہ اللہ تعالیٰ فنقول: اراد بالتقدیر من حیث العرضی تقدیر النجاسۃ الرقیقۃ، واراد بالتقدیر من حیث الوزن تقدیر النجاسۃ الغلیظۃ وھو الصحیح من المذھب ان فی الرقیقۃ یعتبر الدرھم من حیث العرض، وفی الغلیظۃ یعتبر الدرھم من حیث الوزن۔

وفی ردالمحتار (۳۱۸/۱) باب الانجاس(ایچ ایم سعید):قوله ( وهو مثقال ) هذا هو الصحيح وقيل يعتبر في كل زمان درهمه بحر وأفاد أن الدرهم هنا غيره في باب الزكاة فإنه هناك ما كان كل عشرة منه وزن سبعة مثاقيل قوله ( في نجس كثيف ) لما اختلف تفسير محمد للدرهم فتارة فسره بعرض الكف وتارة بالمثقال اختلف المشايخ فيه ووفق الهندواني بينهما بما ذكره لمصنف واختاره كثير منهم وصححه الزيلعي والزاهدي وأقره في الفتح أن إعمال الروايتين إذا أمكن أولى وتمامه في البحر والحلية ومقتضاه أن قدر الدرهم من الكثيفة لو كان منبسطا في الثوب أكثر من عرض الكف لا يمنع كما ذكره سيدي عبد الغنی قوله ( له جرم ) تفسير للكثيف وعد منه في الهداية الدم وعده قاضيخان مما ليس له جرم ووفق في الحلية بحمل الأول على ما إذا كان غليظا والثاني على ما إذا كان رقيقا۔
مستفاد : نجم الفتاوی)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
18 جمادی الآخر 1443

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں