اتوار، 9 جنوری، 2022

قعدہ اولی میں درود شریف پڑھنے پر تفصیلی جواب

سوال :

محترم مفتی صاحب ! تین یا چار رکعتوں والی نماز میں قعدہ اولیٰ میں التحیات کے بعد بھول کر درود شریف بھی پڑھ لیں تو کیاکریں؟ نماز ہوجائے گی؟ یا سجدۂ سہو کرنا ہوگا؟
اور کہاں تک پڑھ لے تو سجدہ سہو نہیں کرنا ہوگا؟
(المستفتی : عقیل احمد ملی، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : فرض، واجب اور سنتِ مؤکدہ یعنی ظہر سے پہلے کی چار رکعت اور جمعہ سے پہلے اور بعد کی چار رکعت کے قعدہ اُولیٰ میں تشہد کے بعد درود شریف پڑھے بغیر فوراً تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہوجانا ضروری ہے، لہٰذا اگر بھول سے درود شریف شروع کردیا تو یاد آتے ہی اسے چھوڑ کر تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہوجائے۔ اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرض نماز کے قعدہ اُولیٰ میں درود شریف پڑھنا ثابت نہیں ہے، بلکہ ترمذی شریف کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم قعدہ اولیٰ اتنا مختصر فرمایا کرتے تھے گویا آپ گرم زمین پر تشریف فرما ہوں، جو بلاشبہ قعدہ اولیٰ سے تیسری رکعت کے لیے جلد اٹھنے کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم تشہد پڑھتے ہی تیسری رکعت کے لیے اٹھ جایا کرتے تھے۔ لہٰذا مذکورہ بالا نمازوں کے قعدہ اُولیٰ میں تشہد کے بعد درود شریف کا اتنا حصہ "اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ" تک سے پڑھنے سے ایک قول کے مطابق سجدۂ سہو واجب ہوجاتا ہے، اور دوسرا قول "آلِ مُحَمَّدٍ" تک پڑھنے پر سجدۂ سہو کے واجب ہونے کا ہے۔ لہٰذا احتیاط اسی میں ہے کہ پہلے قول کے مطابق سجدۂ سہو ادا کرلیا جائے، تاہم اگر کسی نے دوسرے قول کا اعتبار کرتے ہوئے سجدۂ سہو نہیں کیا تب بھی نماز ادا ہوجائے گی۔ البتہ "آلِ مُحَمَّدٍ" تک اگر کوئی پڑھ لے تو اس پر سجدۂ سہو کے واجب ہونے میں اتفاق ہے۔ اگر سجدۂ سہو نہیں کیا تو نماز وقت کے اندر واجب الاعادہ ہوگی، وقت گزرنے کے بعد اعادہ مستحب ہوگا۔ البتہ سنتِ غیر مؤکدہ اور نفل نمازوں میں قعدہ اولی میں تشہد کے بعد درود شریف پڑھنا جائز ہے، بلکہ اسے مستحب لکھا گیا ہے۔

عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيهِ قَالَ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا جَلَسَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ كَأَنَّهُ عَلَى الرَّضْفِ - قَالَ شُعْبَةُ - : ثُمَّ حَرَّكَ سَعْدٌ شَفَتَيْهِ بِشَيْءٍ فَأَقُولُ : حَتَّى يَقُومَ، فَيَقُولُ : حَتَّى يَقُومَ. هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ إِلَّا أَنَّ أَبَا عُبَيْدَةَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِيهِ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ يَخْتَارُونَ أَنْ لَا يُطِيلَ الرَّجُلُ الْقُعُودَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ وَلَا يَزِيدَ عَلَى التَّشَهُّدِ شَيْئًا الرَّكْعَتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ، وَقَالُوا : إِنْ زَادَ عَلَى التَّشَهُّدِ فَعَلَيْهِ سَجْدَتَا السَّهْوِ. هَكَذَا رُوِيَ عَنِ الشَّعْبِيِّ، وَغَيْرِهِ۔ (سنن الترمذی، رقم : ٣٦٦)

حَدَّثَنا جَرِيرٌ، عَنْ نُعَيْمٍ القارِي، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، قالَ : مَن زادَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الأُولَيَيْنِ عَلى التَّشَهُّدِ فَعَلَيْهِ سَجْدَتا سَهْوٍ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم : ٣٠٢٢)

وَقِيلَ لَا يَجِبُ مَا لَمْ يَقُلْ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، ذَكَرَهُ الْقَاضِي الْإِمَامُ، وفِي شَرْحِهِ الصَّغِيرِ أَنَّ مَا ذَكَرَهُ الْقَاضِي الْإِمَامُ هُوَ الَّذِي عَلَيْهِ الْأَكْثَرُ، وَهُوَ الْأَصَحُّ. قَالَ الْخَيْرُ الرَّمْلِيُّ : فَقَدْ اخْتَلَفَ التَّصْحِيحُ كَمَا تَرَى، وَيَنْبَغِي تَرْجِيحُ مَا ذَكَرَهُ الْقَاضِي الْإِمَامُ۔ (شامی : ١/٥١٠)

(وَلَا يُصَلَّى عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْقَعْدَةِ الْأُولَى فِي الْأَرْبَعِ قَبْلَ الظُّهْرِ وَالْجُمُعَةِ وَبَعْدَهَا) وَلَوْ صَلَّى نَاسِيًا فَعَلَيْهِ السَّهْوُ، وَقِيلَ لَا شُمُنِّيٌّ (وَلَا يَسْتَفْتِحُ إذَا قَامَ إلَى الثَّالِثَةِ مِنْهَا) لِأَنَّهَا لِتَأَكُّدِهَا أَشْبَهَتْ الْفَرِيضَةَ (وَفِي الْبَوَاقِي مِنْ ذَوَاتِ الْأَرْبَعِ يُصَلِّي عَلَى النَّبِيِّ) صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (وَيَسْتَفْتِحُ) وَيَتَعَوَّذُ وَلَوْ نَذْرًا لِأَنَّ كُلَّ شَفْعٍ صَلَاةٌ (وَقِيلَ) لَا يَأْتِي فِي الْكُلِّ وَصَحَّحَهُ فِي الْقُنْيَةِ۔ (شامی : ٢/١٧)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
06 جمادی الآخر 1443

1 تبصرہ: