جمعہ، 22 اپریل، 2022

اذان کا لاؤڈ-اسپیکر بیان ودعا کے لیے استعمال کرنا

سوال :

مفتی صاحب! جمعہ کے بیان کے لیے یا مسجد میں کسی دینی مجلس کے پروگرام کے لیے اور یا تراویح میں ختم قرآن کے موقع پر دعا کے لیے مسجد کا اوپر کا اذان والا مائیک استعمال کرسکتے ہیں؟ اگر کر سکتے ہیں تو کس صورت میں؟ کیا اذان کے علاوہ اوپر والا مائیک کسی بیان دعا کے لیے استعمال کرسکتے ہیں؟ کچھ مسجدوں میں بڑے شوق سے اور بڑی فکروں کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد ابراہیم، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مساجد میں اذان کے لیے استعمال ہونے والا لاؤڈ-اسپیکر صرف اذان کے لیے ہی استعمال ہونا چاہیے۔ جمعہ وغیرہ کے مواقع پر بیانات یا تراویح میں ختم قرآن کے موقع پر دعا کے لیے اس کا استعمال کرنا شرعاً درست نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس کی تیز آواز سے مریضوں یا سونے والوں کو تکلیف ہوگی اور انفرادی عبادت کرنے والوں کو خلل ہوگا جو بلاشبہ ایذائے مسلم میں داخل ہے۔

اس معاملہ کی سنگینی کا اندازہ لگائیں کہ اگر اذان کے لاؤڈ-اسپیکر سے جمعہ کے دن تقرير کی اجازت دے دی جائے تو کیا منظر ہوگا شہر کا؟ بیک وقت تین چار سو مساجد سے بھانت بھانت کی تقریروں کی آواز آئے گی، کیا یہ چیز لوگوں کے لیے سخت تکلیف کا باعث نہیں بنے گی؟

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
باہر کا لاوٴڈ اسپیکر جو صرف اذان کے لیے استعمال ہوتا ہے، اسے جمعہ کے دن خطبہ عربی کے لیے یا نماز پڑھانے یا نماز کی قراءة سننے کے لیے یا بیان کے لیے کھولنا جائز نہیں۔ اس سے محلہ پڑوس والوں کی نماز، تلاوت، تسبیحات، اوراد وظائف میں خلل واقع ہوگا۔ بیماروں کے آرام وسکون میں اور برادران وطن کی نیند میں اور ان کے آرام میں خلل ہوگا۔ باہر کے لاوٴڈاسپیکر کو صرف اذان کے استعمال میں لانا چاہیے۔ (رقم الفتوی : 24602)

اگر یہ بیانات اور دعا گھروں میں موجود خواتین کو سناکر ان کی اصلاح مقصود ہو تب بھی یہ عمل شرعاً درست نہیں ہے۔ اس لیے کہ ان کی اصلاح کے دوسرے مؤثر ذرائع موجود ہیں مثلاً ان کا ہفتہ واری اجتماع منعقد کیا جائے اور اس میں اصلاحی خطاب کیا جائے۔ اذان کے لاؤڈ-اسپیکر سے سوائے اذان کے اور کوئی چیز قطعاً شروع نہ کی جائے، لہٰذا جو لوگ اس کا شوق اور فکر رکھتے ہیں انہیں شریعت کے اس حکم کے آگے سرِ تسلیم خم کرلینا چاہیے۔


عن أبي هريرة، عن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم قال: المسلم من سلم الناس من لسانه ويده، والمؤمن من أمنه الناس على دمائهم وأموالهم۔ (سنن النسائي، رقم : ۴۹۹۵)

أجمع العلماء سلفاً وخلفاً علی استحباب ذکر الجماعۃ في المساجد وغیرہا إلا أن یشوش جہرہم علی نائم أو مصل أو قارئ۔ (شامی : ۱؍۶۶۰)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 رمضان المبارک 1443

5 تبصرے:

  1. بہت صحیح بات ہے۔۔۔۔۔۔،

    جواب دیںحذف کریں
  2. یارب وہ سمجھیں ہیں نا سمجھیں گے مری بات۔۔۔بھاٸی لوگ اس بات کو نہیں مانیں گے کیونکہ وہ اسے ثواب کا کام سمجھ کر کرتے ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. ایک مسلک خاص اسمیں حد سے زیادہ ملوث ہے

    جواب دیںحذف کریں