ہفتہ، 2 اپریل، 2022

آنکھ میں دوا ڈالنے سے روزہ کا حکم؟ تحقیقی جواب

سوال :

مفتی صاحب ایک چارٹ واٹس ایپ پر گردش میں ہے جس میں روزہ کن چیزوں سے ٹوٹتا ہے اور کن چیزوں سے نہیں ٹوٹتا ہے وہ لکھا ہے اس میں آنکھ میں لکھا ہوا ہے کہ دوا ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے جبکہ میں نے اپنی کسی کتاب میں پڑھا ہے کہ آنکھ میں دوا ڈالنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ برائے مہربانی آپ بتائیں کیا صحیح ہے؟
(المستفتی : محمد عمیر، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حضراتِ فقہاء نے قرآن واحادیث کے تمام نصوص کو سامنے رکھ کر روزہ ٹوٹنے کا مدار دو چیزوں پر رکھا ہے :

۱) صورتِ افطار :- یعنی منہ سے کوئی چیز قصداً یا سہواً نگل لینا، خواہ وہ کیسی ہی چیز ہو، مفید ہو یا غیر مفید، یا قصداً جماع کرنا۔

۲) معنی افطار :- یعنی جوفِ معدہ یا جوفِ دماغ تک پہنچنے والے طبعی راستوں کے ذریعہ کسی طبعاً یا عرفاً مفید چیز کا جوف تک بالقصد پہنچ جانا یا قصداً انزال کردینا۔

قال العلامۃ بن الہمام : قد علمت أنہ لا یثبت الفطر إلا بصورتہ أو معناہ وقد مر أن صورتہ الابتلاع، وذکر أن معناہ وصول ما فیہ صلاح البدن إلی الجوف۔ (فتح القدیر : ۲؍۷۳)

وقال العلامۃ الشامي: ویظہر من ذٰلک أن مرادہم بما یتغذی بہ ما یکون فیہ صلاح البدن إن کان مما یوکل عادۃً علی قصد التغذي أو التداوي أو التلذذ۔ (شامي : ۲؍۴۱۰ کراچی، شامي : ۳؍۳۸۷ زکریا)

وعلیٰ ہٰذا فالأصل أن الجماع المفسد للصوم ہوالجماع صورۃ وہو ظاہر أو معنی فقط وہو الإنزال الخ۔ (شامي، الصوم / مطلب: في حکم الاستمناء بالکف ۲؍۳۹۹ کراچی، شامي ۳؍۳۷۲ زکریا)

اسی اصول پر مسائل متفرع کرتے ہوئے حضراتِ فقہاء فرماتے ہیں کہ
۱) جہاں صورت اور معنی دونوں اعتبار سے افطار پایا جائے گا، وہاں قضا اور کفارہ دونوں لازم ہوں گے۔ مثلاً کوئی غذا منہ کے راستہ سے قصداً کھالی، تو یہاں صورتِ افطار بھی پائی گئی اور غذا میں افادہ کی صلاحیت موجود ہونے کی وجہ سے معنیٔ افطار بھی پائے گئے۔

عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أن رجلاً أکل في رمضان فأمرہ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن یعتق رقبۃ أو یصوم شہرین أو یطعم ستین مسکیناً۔ (سنن الدار قطني ۲؍۱۷۰ رقم: ۲۲۸۴) ورواہ أبو داؤد عنہ مرفوعاً بلفظ: أفطر، وزاد فیہ حدیثًا طویلاً۔ (سنن أبي داؤد ۴۴۶ رقم: ۲۳۹۲ دار الفکر بیروت)

قال في التنویر : أو أکل أو شرب أو غذائً أو دوائً ما یتدویٰ بہ عمداً … قضیٰ وکفر ککفارۃ المظاہر۔ (تنویر الأبصار مع الدر المختار ۲؍۴۰۶ کراچی، ۳؍۳۸۶ زکریا)

۲) اور جہاں صرف صورتِ افطار یا صرف معنیٔ افطار پائے جائیں، دونوں جمع نہ ہوں، مثلاً پتھری نگل لینا کہ اس میں افطار کی صورت تو پائی جاتی ہے، لیکن افطار کے معنی نہیں پائے جاتے، کیونکہ پتھری بدن کے لئے مفید نہیں ہے یا ناک میں دوا ڈالنا کہ اس میں منفعت پائے جانے کی وجہ سے معنیٔ افطار تو محقق ہیں، مگر صورتِ افطار نہیں پائی جاتی، تو ان صورتوں میں صرف قضا واجب ہوتی ہے، کفارہ لازم نہیں ہوتا۔

أو ابتلع حصاۃً أي فیجب القضاء لوجود صورۃ الفطر ولا کفارۃ لعدم وجود معناہ۔ (شامي ۲؍۴۰۲ کراچی، شامي ۳؍۳۷۶ زکریا)

أو استعط في أنفہ شیئاً (درمختار) وعدم وجوب الکفارۃ في ذٰلک ہو الأصح؛ لأنہا موجب الإفطار صورۃً ومعنیً، والصورۃ الابتلاع کما في الکافي وہي منعدمۃ والنفع المجرد عنہا یوجب القضاء فقط۔ (شامي / مطلب: في حکم الاستمناء بالکف ۲؍۴۰۲ کراچی، شامي ۳؍۳۷۶ زکریا)

عن عطاء کرہ أن یستدخل الإنسان شیئاً في رمضان بالنہار فإن فعل فلیبدل یوماً ولا یفطر ذٰلک الیوم۔ (المصنف لابن عبد الرزاق رقم: ۷۵۰۷)

عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما أنہ ذکر عندہ الوضوء من الطعام، فقال : إنما الوضوء مما یخرج ولیس مما یدخل، وإنما الفطر مما دخل ولیس مما خرج۔ (السنن الکبریٰ للبیہقي ۴؍۶۴۶ رقم: ۸۲۵۳)

۳) اور جن شکلوں میں افطار کے معنی اور صورت میں سے کوئی بھی چیز نہ پائی جائے، وہاں روزہ کے فساد کا حکم نہیں لگایا جاتا، چنانچہ پانی سے نہالینے یا سر وغیرہ میں تیل لگالینے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا، اگرچہ پانی کی ٹھنڈک بدن میں محسوس ہوتی ہے، اور بسا اوقات اس کی وجہ سے پیاس کی شدت ختم ہوجاتی ہے، اسی طرح تیل بھی مسامات کے ذریعہ بدن کے اندر تک پہنچ جاتا ہے۔

تو معلوم ہوا کہ شریعت کی نظر میں روزہ کی حالت میں نفس افادیت ممنوع نہیں ہے، بلکہ وہ خاص افادیت مفسد ہے، جو صورت افطار یا معنی افطار کی شکل میں پائی جائے۔ چند آثار وجزئیات ملاحظہ ہوں :

وبلَّ ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما ثوباً فألقی علیہ وہو صائم۔
وقال ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ: إذا کان صوم أحکم فلیصبح دہنًا مترجّلاً۔ (أخرجہما البخاري تعلیقاً، / باب اغتسال الصائم رقم الباب: ۲۵، فتح الباري ۵؍۱۹۲ دار الکتب العلمیۃ)

عن ابن معسود رضي اللّٰہ عنہ قال: أوصاني رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن أصبح یوم صومي دہِیناً مترجلاً … الخ۔ (المعجم الکبیر للطبراني۱۰؍۸۴ رقم: ۱۰۰۲۸ بحوالہ: التعلیقات علی الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۳۹۶ زکریا)

عن أبي بکر بن عبد الرحمن عن بعض أصحاب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال : رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أمر الناس في سفرہ عام الفتح بالفطر … قال أبوبکر: قال الذي حدثني: لقد رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بالعرج یصب علی رأسہ الماء وہو صائم من العطش أو من الحرِّ۔ (سنن أبي داؤد / باب الصائم یصب علی الماء من العطش رقم: ۲۳۶۵ دار الفکر بیروت)

والمفطر الداخل من المنافذ کالمدخل والمخرج لا من المسام الذي ہو خلل البدن وما یدخل من المسام البدن للاتفاق في من شرع في الماء … یجد بردہ في بطنہ ولا یفطر۔ (فتح القدیر ۲؍۳۳۰)

والمضطر إنما ہو الداخل من المنافذ، للاتفاق علی أن من اغتسل في ماء فوجد بردہ في باطنہ أنہ لا یفطر۔ (شامي / مطلب: یکرہ السہر إذا خاف فوت الصبح ۳؍۳۶۷ زکریا)
وقال في الہندیۃ: وما یدخل من مسام البدن من الدہن لایفطر۔ (ہندیۃ ۱؍۲۰۳)

اس اصولی بحث کی روشنی میں آنکھ میں دوا ڈالنے، اسی طرح بدن کے کسی حصہ میں انجکشن لگانے اور گلوکوز چڑھانے کے مسائل بھی حل کئے جاسکتے ہیں۔ غور کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ان مسائل میں صورت افطار اور معنی افطار کوئی بھی شکل نہیں پائی جارہی ہے۔ صورتِ افطار کا نہ پایا جانا تو ظاہر ہے، کیونکہ منہ کے راستے سے دوا نہیں ڈالی جاتی، اور معنیٔ افطار بھی نہیں پائے جاتے، اس لئے کہ یہ دوا براہِ راست جوف تک نہیں پہنچتی، بلکہ رگوں اور مسامات کے ذریعہ پہنچتی ہے، چنانچہ طب کی کتابوں میں لکھا ہے کہ آنکھ کے کنارے سے ایک نالی آنسوؤں کی تھیلی (کیس دمعی) تک پہنچتی ہے، اس تھیلی کے نیچے کی جانب سے ایک رگ ناک کے منفذ میں کھلتی ہے، اور ناک کا منفذ حلق میں جاکر ملتا ہے، تو درمیان میں کئی رگوں کا واسطہ ہوگیا۔ براہِ راست معدہ یا دماغ میں پہنچنے کی بات متحقق نہیں ہوئی، اس لئے روزہ کے فساد کا حکم نہ لگے گا۔ یہی معاملہ انجکشن اور گلوکوز کا بھی ہے کہ وہاں دوا براہِ راست معدہ میں نہیں پہنچتی، بلکہ درمیان میں مختلف رگوں کا واسطہ ہوتا ہے۔

امید ہے کہ درج بالا تفصیلات سے آپ کو ان شاء اللہ تشفی ہوجائے گی کہ صحیح بات یہی ہے کہ آنکھ میں دوا ڈالنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، آپ نے جہاں روزہ ٹوٹ جانے والا مسئلہ پڑھا ہے وہ تحقیقی نہیں ہے اور نہ ہی فقہی جزئیات کے مطابق ہے۔ لہٰذا اس پر توجہ نہ دیں۔

عن عائشۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہا قالت: اکتحل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وہو صائم۔ (سنن ابن ماجۃ ۱؍۱۲۱ رقم: ۱۶۷۸)

قال في الہدایۃ: ولو اکتحل لم یفطر؛ لأنہ لیس بین العین والدماغ منفذ، والدمع یترشح کالعرق، والداخل من المسام لا ینافي کما لو اغتسل من الماء البارد۔ (ہدایۃ مع الفتح ۲؍۳۳۴ زکریا)

وقال في الہندیۃ : لو أقطر شیئاً من الدواء في عینہٖ لایفطر صومہ عندنا، وإن وجد طعمہ في حلقہ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۲۰۳)

وقال في البدائع : ولنا ما روي عن عبد اللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنہ أنہ قال خرج علینا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في رمضان وعیناہ مملوأتان کحلاً کحلتہ أم سلمۃ رضي اللّٰہ عنہا ولأنہ لا منفذ من العین إلی الجوف ولا إلی الدماغ، وما وجد من طعمہ فذلک أثرہ لا عینہ، وأنہ لا یفسد کالغبار والدخان، وکذا لو أدہن رأسہ أو أعضاء ہ فتشرب فیہ أنہ لا یضرہ؛ لأنہ وصل إلیہ الأثر لا العین۔ (بدائع الصنائع، الصوم / مفسداتہ ۲؍۲۴۴ زکریا)

وإنما کرہ الإمام الدخول في الماء والتلفف بالثوب المبلول لما فیہ من إظہار الضجر في إقامۃ العبادۃ لا؛ لأنہ مفطر۔ (شامي ۲؍۳۹۶ کراچی، شامي ۳؍۳۶۷ زکریا/کتاب النوازل : ٦/٢١١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
29 شعبان المعظم 1443

3 تبصرے:

  1. روزے کے حالت میں سر پر شمپو لگا کر نہانے کی وجہ سے کبھی کبھی شیمپو کان میں بھی چلی جاتی ہے تو اس کا کیا حکم ہے
    جب کے تر چیز ڈالنا منع ہے

    جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. کان میں بعد میں پانی ڈال کر صاف کرلیں

      حذف کریں