ہفتہ، 30 اپریل، 2022

نماز عیدالفطر سے پہلے کچھ میٹھا کھانا

سوال :

محترم جناب مفتی صاحب ! تحقیق اس امر کی مطلوب ہے کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نماز عید الفطر کے لئے جانے سے پہلے کچھ میٹھا تناول فرماتے تھے؟ یا آپ نے کبھی تناول فرمایا ہے؟ جیسا کہ عیدالفطر کے دن مسنون اعمال میں ظاہر ہوتا ہے۔ ازراہ کرم مدلل جواب سے نوازیں۔
(المستفتی : محمد طلحہ، جلگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کھجوریں تناول فرمائے بغیر عیدگاہ تشریف نہیں لے جاتے تھے اور کھجوریں طاق عدد میں تناول فرماتے تھے۔

اس حدیث شریف کی تشریح میں شارحین حدیث نے جو کچھ لکھا ہے ہم اسے یہاں نقل کررہے ہیں تاکہ اس سلسلے میں آپ کو مکمل تشفی ہوجائے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم عید کے روز عیدگاہ جانے سے پہلے کھجوریں تناول فرما کر گویا کھانے میں جلدی کرتے تھے تاکہ پہلے دنوں یعنی ایام رمضان میں امتیاز پیدا ہو جائے کیونکہ جس طرح رمضان میں نہ کھانا واجب ہے اسی طرح عید کے روز کھانا واجب ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ و سلم کھجوریں طاق یعنی تین، پانچ، سات یا اس سے کم اور زیادہ تناول فرماتے تھے چونکہ ہر کام میں "طاق" کی رعایت رکھنا بہتر ہے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس معاملہ میں بھی طاق کا لحاظ فرماتے تھے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ اِنَّ اللہَ وِتْرٌ یُحِبُّ الْوِتْر یعنی اللہ تعالیٰ طاق ہے اور طاق کو پسند فرماتا ہے۔

عید کے روز آپ صلی اللہ علیہ و سلم کھجوریں اس لئے تناول فرماتے تھے کہ وہی اس وقت موجود ہوتی تھیں۔ بعض حضرات نے کہا ہے کہ کھجوریں کھانے میں حکمت یہ تھی کہ وہ شیریں ہوتی ہے اور شیرینی تقویت بصر کا ذریعہ بنتی ہے خاص طور پر خالی معدہ کے وقت تو نگاہوں کی تقویت کے لئے یہ بڑی زود اثر ہوتی ہے۔ لہٰذا روزوں کی وجہ سے جو ضعف ہوجاتا تھا کھجوریں اپنے اثرات سے اسے ختم کرتی تھیں۔ پھر یہ کہ شیرینی مقتضاء ایمان کے موافق ہے۔

خلاصہ یہ کہ عید الفطر میں عیدگاہ جانے سے پہلے طاق عدد میں چھوارے یا کھجور کھاکر جانا مسنون و مستحب ہے، اگر یہ میسر نہ ہو تو کوئی بھی میٹھی چیز کھالینا کافی ہے، اس موقع پر صرف کھجور یا چھوہارہ ہی کھانا سنت نہیں۔

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَغْدُو يَوْمَ الْفِطْرِ حَتَّى يَأْكُلَ تَمَرَاتٍ، وَقَالَ مُرَجَّأُ بْنُ رَجَاءٍ : حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ، قَالَ : حَدَّثَنِي أَنَسٌ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : وَيَأْكُلُهُنَّ وِتْرًا۔ (صحیح البخاری، رقم : ٩٥٣)

(قَوْلُهُ وَنُدِبَ يَوْمَ الْفِطْرِ أَنْ يَطْعَمَ وَيَغْتَسِلَ وَيَسْتَاكَ وَيَتَطَيَّبَ وَيَلْبَسَ أَحْسَنَ ثِيَابِهِ) اقْتِدَاءً بِالنَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَيُسْتَحَبُّ كَوْنُ ذَلِكَ الْمَطْعُومِ حُلْوًا لِمَا رَوَى الْبُخَارِيُّ «كَانَ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - لَا يَغْدُو يَوْمَ الْفِطْرِ حَتَّى يَأْكُلَ تَمَرَاتٍ وَيَأْكُلَهُنَّ وِتْرًا» وَأَمَّا مَا يَفْعَلُهُ النَّاسُ فِي زَمَانِنَا مِنْ جَمْعِ التَّمْرِ مَعَ اللَّبَنِ وَالْفِطْرِ عَلَيْهِ فَلَيْسَ لَهُ أَصْلٌ فِي السُّنَّةِ۔ (البحر الرائق : ٢/١٧١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
28 رمضان المبارک 1443

2 تبصرے: