منگل، 12 اپریل، 2022

تراویح کی نیت کا مسئلہ

سوال :

مفتی صاحب تراویح کی نیت کس طرح کرنا درست ہے؟ 2 2 رکعت پر یا پھر پوری 20 رکعت کی نیت کر لینا درست ہے؟ اگر دو تین امام تراویح پڑھائیں تو نیت کس طرح کریں؟ اور نمازِ تروایح نفل،سنت مؤکدہ یا واجب ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : کاشف انجینئر، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نماز کے لیے نیت کرنا ضروری ہے اور نیت دراصل دل کے ارادے کا نام ہے، لہٰذا دل میں ارادہ ہوجائے تو یہی نماز کے لیے کافی ہوجائے گا۔ زبان سے نیت کرنا اگرچہ قرآن و حدیث سے ثابت نہیں ہے، لیکن ناجائز اور بدعت بھی نہیں ہے، عوام الناس کے قلب و ذہن کو حاضر اور یکسو کرنے کے لئے فقہاء نے نیت کے الفاظ کو زبان سے کہنے کو بہتر لکھا ہے، تاہم زبان سے نیت کے الفاظ کہنے کو ضروری سمجھنا درست نہیں ہے۔

بلاشبہ نیت سے متعلق عوام کا ایک بڑا طبقہ غلط فہمیوں کا شکار ہے، اور زبان سے نیت کرنے کو ایک مشکل اور گھمبیر مسئلہ بنادیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ نیت کے طول طویل الفاظ ادا کرنے میں تکبیرِ اُولیٰ بلکہ رکعت تک فوت کردیتے ہیں جو بالکل بھی درست نہیں ہے۔ لہٰذا اس کی اصلاح ضروری ہے۔

معلوم ہونا چاہیے اگر زبان سے نیت کے الفاظ ادا کیے جارہے ہیں تو اصل نیت کے الفاظ بالکل مختصر ہیں، لہٰذا تراویح کی نیت ایک ساتھ بیس رکعت کی بھی کی جاسکتی ہے۔ مثلاً اس طرح کہہ لینا کہ "بیس رکعت تراویح امام کے پیچھے ادا کرتا ہوں"۔ اس سے زیادہ کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہیں۔ اب تراویح میں چند رکعتوں کے بعد امام تبدیل ہو تب بھی نیت پر کوئی اثر نہیں ہوگا، اس لیے کہ نیت مطلق امام کی اقتداء کی جاتی ہے نہ کہ مخصوص امام کی اقتداء کی نیت کی جاتی ہے۔ لہٰذا یہاں تردد میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یا ہر دو رکعت پر اس طرح کہنا کہ "دو رکعت تراویح امام کے پیچھے ادا کرتا ہوں" کافی ہے۔ اور تراويح سنت مؤکدہ ہے، لیکن نیت میں یہ بھی بولنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور اگر کسی نے تراویح کی نیت کرنے میں اسے واجب یا نفل کہہ دیا تب بھی تراویح ادا ہوجائے گی۔

(وَ) الْخَامِسُ : (النِّيَّةُ) بِالْإِجْمَاعِ (وَهِيَ الْإِرَادَةُ) الْمُرَجِّحَةُ لِأَحَدِ الْمُتَسَاوِيَيْنِ أَيْ إرَادَةُ الصَّلَاةِ لِلّٰہِ تَعَالَى عَلَى الْخُلُوصِ، (لَا) مُطْلَقُ (الْعِلْمِ) فِي الْأَصَحِّ، أَلَا تَرَى أَنَّ مَنْ عَلِمَ الْكُفْرَ لَا يَكْفُرُ، وَلَوْ نَوَاهُ يَكْفُرُ، (وَالْمُعْتَبَرُ فِيهَا عَمَلُ الْقَلْبِ اللَّازِمِ لِلْإِرَادَةِ) فَلَا عِبْرَةَ لِلذِّكْرِ بِاللِّسَانِ إنْ خَالَفَ الْقَلْبَ؛ لِأَنَّهُ كَلَامٌ لَا نِيَّةَ إلَّا إذَا عَجَزَ عَنْ إحْضَارِهِ لِهُمُومٍ أَصَابَتْهُ فَيَكْفِيهِ اللِّسَانُ، «مُجْتَبَى»، (وَهُوَ) أَيْ عَمَلُ الْقَلْبِ (أَنْ يَعْلَمَ) عِنْدَ الْإِرَادَةِ (بَدَاهَةً) بِلَا تَأَمُّلٍ (أَيَّ صَلَاةٍ يُصَلِّي)، فَلَوْ لَمْ يَعْلَمْ إلَّا بِتَأَمُّلٍ لَمْ يَجُزْ. (وَالتَّلَفُّظُ) عِنْدَ الْإِرَادَةِ (بِهَا مُسْتَحَبٌّ) هُوَ الْمُخْتَارُ، وَتَكُونُ بِلَفْظِ الْمَاضِي وَلَوْ فَارِسِيًّا؛ لِأَنَّهُ الْأَغْلَبُ فِي الْإِنْشَاءَاتِ، وَتَصِحُّ بِالْحَالِ، «قُهُسْتَانِيٌّ»، (وَقِيلَ: سُنَّةٌ) يَعْنِي أَحَبَّهُ السَّلَفُ أَوْ سَنَّهُ عُلَمَاؤُنَا؛ إذْ لَمْ يُنْقَلْ عَن الْمُصْطَفَى ﷺ وَلَا الصَّحَابَةِ وَلَا التَّابِعِينَ، بَلْ قِيلَ : بِدْعَةٌ۔ (الدر مع الشامی : ١١٦- ١/١١٤)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
10 رمضان المبارک 1443

5 تبصرے:

  1. جزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء

    جواب دیںحذف کریں
  2. السلام علیکم
    زید ہر سال زکوٰة لیتا ہے اسی طرح اس کے پاس زکوٰة اور صدقات کی رقم سے اس نے سونا چاندی کے زیورات بنا لیۓاور دھیرے دھیرےاس کے پاس اتنی رقم اور زیورات ہو گۓ کہ وہ خود صاحب حیسیت ہو گیا اور اس پر زکوٰة واجب ہو گئ۔ تو مفتی صاحب اس کو زکوٰة دینا کیسا ہے ؟
    کیا وہ مرد یا اس طرح کی کوی عورت اب اپنے مال کی زکوٰة ادا کر سکتی ہے ؟

    جواب دیںحذف کریں