جمعہ، 1 اپریل، 2022

زکوٰۃ کس پر واجب ہے؟ تفصیلی جواب

سوال :

مفتی صاحب! زکوٰۃ کے بارے میں رہنمائی فرمائیں کہ صاحِب نصاب شخص کون ہے؟ زکوٰۃ کب واجب ہوتی ہے؟ یعنی جس دن سے صاحب نصاب ہو اُسی دن سے؟ یا ایک سال کا عرصہ گزرنا شرط ہے؟
(المستفتی : انصاری ابواللیث، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : زکوٰۃ ہر صاحبِ نصاب، عاقل، بالغ، مرد وعورت پر واجب ہے۔ صاحب نصاب وہ ہے جس کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی ہو (لیکن یہ پرانے تولے کے مطابق ہے جو تقریباً بارہ گرام کا ہوا کرتا تھا، جبکہ موجودہ تولہ دس گرام کا ہوتا ہے، لہٰذا اب سونے کا نصاب آٹھ تولہ سات گرام اور چاندی کا نصاب تقریباً باسٹھ تولہ ہوگا) یا پھر اس کے پاس باسٹھ تولہ چاندی کی قیمت کے بقدر نقد رقم یا مالِ تجارت ہو۔

اگر کسی کے پاس صرف سونا ہو اور اس کی مقدار 87 گرام نہ پہنچتی ہو یا صرف چاندی ہو جس کی مقدار 62 تولہ نہ پہنچتی ہو تو اس پر زکوٰۃ واجب نہ ہوگی۔ لیکن اگر سونے کے ساتھ کچھ چاندی یا نقد رقم یا پھر مال تجارت ہو اور ان سب کی قیمت چاندی کے نصاب کے مطابق باسٹھ تولہ تک پہنچ جائے (جس کی قیمت فی الحال مارچ 2024 میں تقریباً 50000 پہنچ رہی ہے) تو اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔ لہٰذا وہ اپنے مال کا ڈھائی فیصد زکوٰۃ میں ادا کرے گا، یعنی کل مال کو چالیس سے تقسیم کرے گا جو جواب آئے گا وہی زکوٰۃ ہوگی۔ البتہ اگر اس پر قرض ہوتو قرض کی رقم کل مالیت سے نکالنے کے بعد ایسا شخص صاحبِ نصاب باقی رہے گا تب اس پر زکوٰۃ ہوگی، ورنہ نہیں۔

نصاب پر سال گذرنے کا مسئلہ بھی سمجھ لیں کہ اگر کسی کے پاس سال کے شروع اور اخیر میں نصاب کے بقدر مال تھا مگر درمیان سال میں اس کی مقدار کم رہی تب بھی پورے نصاب کی زکوٰۃ واجب ہوگی۔ مثال کے طور پر اگر کسی کے پاس یکم رمضان کو نصاب کے بقدر (باسٹھ تولہ چاندی کی قیمت) تھی، پھر درمیان میں اس میں کمی ہوگئی، لیکن دوسرے سال رمضان کی ایک تاریخ کو دوبارہ اس کے پاس بقدر نصاب مال آگیا تو وہ صاحب نصاب ہے، لہٰذا اس وقت اس کے پاس جتنا مال ہو خواہ وہ ایک دن پہلے کیوں نہ آیا ہو مثلاً سونا، چاندی، نقد رقم اور مالِ تجارت ہوگا سب کا ڈھائی فیصد زکوٰۃ میں ادا کرنا ہوگا، البتہ اگر درمیان میں سارا مال ختم ہوجائے تو اس صورت میں اس پر زکوٰۃ واجب نہ ہوگی۔

منہا کون المال نصاباً…، ومنہا الملک التام ومنہا فراغ المال عن حاجتہ الأصلیۃ فلیس فی دور السکنی وثیاب البدن وأثاث المنازل ودواب الرکوب وعبید الخدمۃ وسلاح الاستعمال زکاۃ…، ومنہا الفراغ عن الدین… ومنہا کون النصاب نامیاً۔ (شامی : ۳؍۱۷۴)

عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبَعْضِ أَوَّلِ هَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ : فَإِذَا كَانَتْ لَكَ مِائَتَا دِرْهَمٍ وَحَالَ عَلَيْهَا الْحَوْلُ فَفِيهَا خَمْسَةُ دَرَاهِمَ، وَلَيْسَ عَلَيْكَ شَيْءٌ - يَعْنِي فِي الذَّهَبِ - حَتَّى يَكُونَ لَكَ عِشْرُونَ دِينَارًا، فَإِذَا كَانَ لَكَ عِشْرُونَ دِينَارًا وَحَالَ عَلَيْهَا الْحَوْلُ فَفِيهَا نِصْفُ دِينَارٍ، فَمَا زَادَ فَبِحِسَابِ ذَلِكَ - قَالَ : فَلَا أَدْرِي أَعَلِيٌّ يَقُولُ : فَبِحِسَابِ ذَلِكَ. أَوْ رَفَعَهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَلَيْسَ فِي مَالٍ زَكَاةٌ حَتَّى يَحُولَ عَلَيْهِ الْحَوْلُ. إِلَّا أَنَّ جَرِيرًا قَالَ : ابْنُ وَهْبٍ يَزِيدُ فِي الْحَدِيثِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَيْسَ فِي مَالٍ زَكَاةٌ حَتَّى يَحُولَ عَلَيْهِ الْحَوْلُ۔ (سنن ابی داؤد، رقم : ١٣٧٣)

نصاب الذہب عشرون مثقالاً۔ (تنویر الابصار مع الدر المختار ۳؍۲۲۴، ہدایۃ ۱؍۲۱۱)

وفی کل عشرین مثقالاً نصف مثقال۔ (تاتارخانیۃ زکریا ۳؍۱۵۵)

نصاب فضۃ مأتا درہم بالاجماع۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ : ۲۳؍۲۶۴)

والفضۃ مأتا درہم کل عشرۃ دراہم وزن سبعۃ مثاقیل۔ (تنویر الابصار مع الدر المختار : ۳؍۲۳۴)

عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال : قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : من استفاد مالاً فلا زکاۃ علیہ حتی یحول علیہ الحول۔ (سنن الترمذي رقم: ۶۳۱)

وسببہ أي سبب افتراضہا ملک نصاب حولي نسبۃ للحول لحولانہ علیہ تام۔ (درمختار : ۳؍۱۷۴)

ومنہا الملک التام ہو ما اجتمع فیہ الملک والید وأما إذا وجد الملک دون الید کالصداق قبل القبض أو وجد الید دون الملک کملک المکاتب والمدیون لاتجب فیہ الزکوٰۃ الخ۔ (الفتاویٰ الہندیہ، کتاب الزکوٰۃ، الباب الأول فی تفسیر ہا وصفتہا وشرائطہا، ۱/۲۳۳)

وفی عروض التجارۃ والدراھم والدنانیر نقصان النصاب فی اثناء الحول لایمنع وجوب الزکوۃ بلا خلاف وفی السراجیۃ وان عاد الی شیٔ قلیل،… ولو کان النصاب کاملا فی اول الحول وکاملا فی آخر الحول وفیما بینھما ھلک کلہ ولم یبق منہ شیٔ لاتجب الزکاۃ۔ وفی السغنا قی بالاتفاق۔ (فتاوی تاتارخانیۃ، ۲۵۲،۲۵۱/۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
28 شعبان المعظم 1443

5 تبصرے:

  1. جزاکم اللہ خیرا ۔۔۔ مفتی صاحب پھر اب جبکہ آٹھ تولہ تقریباً سونے کا نصاب ہے تو پھر ساڑھے سات تولہ کہوں کہا جاتا ہے ؟

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. وہ پرانا سب کی زبان پر چڑھ گیا ہے۔ لیکن اب کوشش یہ کرنا چاہیے کہ اس کی وضاحت کردینا چاہیے۔

      حذف کریں
  2. 94000 پر کتنی زکوٰۃ ادا کرنا پڑے گا

    جواب دیںحذف کریں
  3. السلام علیکم
    امید کہ۔ خیریت سے ہونگے
    گذشتہ دنوں میں شہر کی ایک مسجد میں تراویح مکمل ہونے کے کچھ دیر بعد گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک ادھیڑ عمر کے صاحب ماچس جلا ئے بیٹھے ہیں اور منہ میں بیڑی۔۔ دیکھتے ہی مجھے غصہ آیا میں نے کچھ نہ کہا بس دیکھتا رہا۔ اور دوبارہ نظر پڑی تو مست کش لگا رہے تھے۔ میں نے کہا مسجد میں۔۔ بولے تو کیا ہوا۔ میں نے کہا مسجد ہے۔ کہا۔ میں اعتکاف میں ہوں کیا کرسکتا ہوں۔ میرے منہ سے بے ساختہ نکلا کہ صحن میں کیوں مسجد کے اندر بیٹھ کر پیو۔
    کیا ایسا کیا جاسکتا ہے۔۔ اعتکاف کے لیے شریعت میں کیا خاص چھوٹ دی گئی ہے؟ میرے علم کے مطابق نشہ کیسا بھی ہو حرام ہے۔ براہ کرم رہنمائی فرمائیں کیونکہ اعتکاف میں ابھی سینکڑوں کی تعداد میں لوگ بیٹھے گے۔

    جواب دیںحذف کریں