جمعرات، 4 اپریل، 2019

بسی کے ذمہ دار کا ممبران سے تاخیر کی صورت میں جرمانہ وصول کرنا

*بسی کے ذمہ دار کا ممبران سے تاخیر کی صورت میں جرمانہ وصول کرنا*

سوال :

میرے پاس بسی لگتی ہے جس میں 50 ممبر ہیں ہر ہفتہ 1000 کے حساب سے 50000 جمع ہو تے ہیں، بسی جمع کرنے وقت 4 بجے تک ہے، 4 بجے کے بعد ایک سو روپے جرمانہ وصول کرتا ہوں جو لڑکیوں مدرسے میں دیا جاتا ہے۔ جرمانہ وصول کرنے کا شرعی حکم کیا ہے؟ جرمانہ کسی مدرسے میں دینا  کیسا ہے؟
(المستفتی : محمد زکریا، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کسی بھی ادارے کی انتظامیہ کا اپنے ماتحتوں اور ملازموں سے ادارے کے ضابطہ کی خلاف ورزی کی صورت میں ان سے مالی جرمانہ وصول کرنا جمہور علماء امت بشمول طرفین (امام ابو حنیفۃ اور امام محمد رحمهما اللہ) کے نزدیک جائز نہیں ہے۔ اگر وصول کرلیا گیا ہوتو اسکا واپس کرنا ضروری ہے، جرمانہ کی رقم کا استعمال انتظامیہ کے لیے شرعاً جائز نہیں ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں آپ کا بسی کے ممبران سے تاخیر کی صورت میں جرمانہ لینا اور اسے مدرسے میں یا کہیں اور دینا شرعاً جائز نہیں ہے، اگر جرمانہ لے لیا گیا ہے تو اس کا واپس کرنا ضروری ہے۔

البتہ نظم و ضبط بحال رکھنے کے لیے یہ صورت اختیار کی جاسکتی ہے کہ آپ اراکین سے ان کی رضامندی سے یہ معاہدہ کرلیں کہ آپ کے بنائے ہوئے ضابطہ کی خلاف ورزی کی صورت میں ممبران پر مثلاً ۱۰۰؍ روپئے فلاں مد میں صدقہ کرنا لازم ہوگا، تو اس معاہدہ کی رو سے ۱۰۰؍ روپئے لینا، اور اسے متعینہ مد میں صرف کرنا جائز ہوگا، اس مد کے علاوہ کہیں اور خرچ کرنا یا اپنے ذاتی استعمال میں لانا جائز نہ ہوگا۔

عَنْ أنَسِ بْنِ مالِكٍ، أنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قالَ: «لا يَحِلُّ مالُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إلّا بِطِيبِ نَفْسِهِ۔ (سنن الدارقطني، رقم : ٢٨٨٥)

التعزیر بالمال جائز عند أبی یوسف، وعندہما وعند الأئمۃ الثلاثۃ لایجوز، وترکہ الجمہور للقرآن والسنۃ : وأما القرآن فقولہ تعالی :{فاعتدوا علیہ بمثل ما اعتدی علیکم} ۔ وأما السنۃ فإنہ علیہ السلام قضی بالضمان بالمثل ولأنہ خبر یدفعہ الأصول فقد أجمع العلماء علی أن من استہلک شیئاً لم یغرم إلا مثلہ أو قیمتہ۔ (اعلاء السنن : ۱۱/۷۳۳)

وَفِي الْبَحْرِ وَلَا يَكُونُ التَّعْزِيرُ بِأَخْذِ الْمَالِ مِنْ الْجَانِي فِي الْمُذْهَبِ۔ (مجمع الأنہر : ۱/۶۰۹)

وَالْحَاصِلُ أَنَّ الْمَذْهَبَ عَدَمُ التَّعْزِيرِ بِأَخْذِ الْمَالِ۔ (شامی : ٤/٦٢)

لَا يَجُوزُ لِأَحَدٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ أَخْذُ مَالِ أَحَدٍ بِغَيْرِ سَبَبٍ شَرْعِيٍّ.۔ (شامی : ٤/٦١)

قال اللہ تعالٰی : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا۔ (سورۃ الاسراء، آیت : ۳۴)

وأوفوا بالعہدأي ما عاہدتم اللہ تعالی علیہ من التزام تکالیفہ وعاہدتم علیہ غیرکم من العباد، ویدخل فی ذلک العقود۔ (روح المعانی : ۹/۱۰۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
27 رجب المرجب 1440

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں