اتوار، 14 اپریل، 2019

شب برأت کے منقولات و مردودات

*شب برأت کے منقولات و مردودات*

سوال :

محترم جناب مفتی صاحب!
دریافت طلب امر یہ ہے کہ شب برأت سے متعلق محقق فضائل کیا ہیں؟ نیز عموماً شب برأت کو ہمارے یہاں حلوہ بنایا جاتا ہے، اور فاتحہ خوانی ہوتی ہے، اس کی کیا حقیقت ہے؟
آگاہ فرمائیں۔
(المستفتی : افضال احمد ملی، پمپر کھیڑ، چالیسگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : شب برأت سے متعلق جتنی روایات ذخیرہ احادیث میں موجود ہیں ان پر علماء کا اتفاق ہے کہ یہ سب سند کے لحاظ سے ضعیف ہیں، اس باب میں صحیح سند سے کوئی روایت موجود نہیں ہے، بعض محدثین نے ان روایات کو سخت ضعیف اور موضوع تک کہا ہے، لیکن راجح موقف یہ ہے کہ شب برأت کی فضیلت موضوع اور من گھڑت نہیں ہے، بلکہ اس کی فضیلت ثابت ہے۔

مولانا یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ شب برأت کی فضیلت پر کوئی بھی مرفوع صحیح روایت نہیں ہے۔ ولم اقف على حديتِ مُسنَدِ مرفوع صحيح في فضلها۔ (معارف السنن، ۵/ ۴۱۹)

ابن دحیہ محدث نے فرمایا کہ نصف شعبان کی رات کے بارے میں کوئی چیز ثابت نہیں ہے اور نہ ہی سچے راویوں نے اس میں کسی خاص نماز کو ادا کیا ہے۔ (فیض القدیر شرح الجامع الصغیر، ۲/ ۳۱۷)

تاہم چونکہ ضعیف روایات کئی ایک ہیں اور متعدد صحابہ سے مروی ہیں، بعض کی سند میں زیادہ کلام نہیں، بعض کو ابن حبان نے اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے، بعض کی سند کو منذری نے لابأس بہ فرمایا۔ اس لئے محدثین کے اصول کے مطابق مجموعۂ احادیث سے شب برأت کی فضیلت ثابت مانی جائے گی، یہی بات عام طور پر محدثین اور فقہا میں مشہور ہے، اور یہی حق ہے۔

علامہ ابن تیمیہ جو عام طور سے ایسی چیزوں کا انکار کر دیتے ہیں وہ بھی شب براءت کی فضیلت کوتسلیم کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں : نصف شعبان کی رات کی فضیلت میں اتنی احادیث اور آثار مروی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کو فضیلت حاصل ہے، اور بعض سلف نے اس رات کو نماز کے لئے خاص کیا ہے۔(فیض القدير، ۲/ ۳۱)

مولانا عبدالرحمن مبارکپوری شرح ترمذی میں فرماتے ہیں، یہ احادیث اپنے مجموعہ کے ساتھ ان لوگوں کے خلاف ثبوت ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ نصف شعبان کی رات کی فضیلت میں کچھ ثابت ہیں۔(تحفة الاحوذی، ۲/ ۵۳)

لہٰذا متشدد لوگوں کی باتوں میں آکر دھوکہ نہ کھائیں بلکہ بقدر استطاعت و بشاشت اس رات سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔

ذیل میں وہ تین روایات ذکر کی جاتی ہیں جن میں شب برأت کےتقریباً تمام فضائل آجائیں گے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ میں نے ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو (سو کر اٹھنے کے بعد) نہیں پایا۔ میں باہر گئی تو آپ صلی الله علیہ وسلم بقیع میں تھے۔ آپ نے فرمایا : کیاتم ڈر رہی تھیں کہ اللہ تعالی اور اس کے رسول تم پر ظلم کریں گے (یعنی تمہاری باری کے دن دوسری بیوی کے پاس چلے جائیں گے) میں نے کہا ۔ یا رسول اللہ میں نے سمجھا کہ آپ دوسری بیوی کے یہاں تشریف لے گئے ۔ آپ نے فرمایا : اللہ تعالی نصف شعبان کی رات میں قریبی آسمان کی طرف نزول فرماتے ہیں (یہ اُترنا اللہ تعالی کی شان کے مطابق ہوتا ہے) اور بنو کلب قبیلہ کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے بھی زیادہ مغفرت فرماتے ہیں۔ (١) یہ روایت اسی سند سے ابن ماجہ میں بھی ہے (صفحہ ۹۹) رزین نے بھی اس کو روایت کیا ہے۔ اس میں یہ ہے کہ بنوکلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ ایسے لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے جوجہنم کے مستحق تھے۔ (مشکوۃ صفحہ ۱۱۵)

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا الله تعالی پندرہویں شعبان کی رات میں یعنی چودہویں اور پندرہویں شعبان کی درمیانی رات میں اپنی تمام مخلوقات کی طرف توجہ فرماتے ہیں، مشرک اور دشمنی رکھنے والے کے سوا مخلوق کی مغفرت فرماتے ہیں۔ (٢)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ تعالی پندرہویں شعبان کی رات میں اپنی مخلوق کی طرف توجہ فرماتے ہیں اور اپنے بندوں کی مغفرت فرماتے ہیں، سوائے  دو کے، (ایک) دشمنی رکھنے والا (دوسرا) کسی (نفس محترم) کو قتل کرنے والا۔ اس کو امام احمد نے نرم سند کے ساتھ روایت کیا۔ (٣)

شیعہ یہ کہتے ہیں کہ پندرہ شعبان ان کے امام غائب کی پیدائش کا دن ہے، اور بعض شیعوں کا عقیدہ ہے کہ پندرہ شعبان کو ان کی واپسی ہوگی، لہٰذا وہ لوگ اس خوشی میں اچھے کھانے حلوے وغیرہ بناتے ہیں، آتش بازی کرتے ہیں، غرض شیعہ اس دن کو تہوار کی طرح مناتے ہیں، ان کی دیکھی دیکھا ہمارے کم علم سنی حضرات بھی اس دن کو تہوار کی طرح منانے لگے۔ حلوے کے ساتھ فاتحہ خوانی کی بدعت بھی چل نکلی، یہ سب شیعوں کی نقالی، ان کی مشابہت اور بدعت ہے، جن سے اجتناب لازم ہے، ہمارے یہاں اس رات صرف اتنا ہے کہ جس کو توفیق ہو اپنے گھر میں بیٹھ کر کچھ عبادت کرلے اور اللہ سے دعا کرلے۔ (٤)

١) عن عائشة مرفوعاً بلفظ "فقدت رسول الله صلى الله عليه وسلّم ذات ليلة فإذا هو بالبقيع رافع رأسه الی السماء فقال: أكنت تخافين أن يحيف الله عليك ورسولہ؟ قالت: ماذلك يارسول الله؛ ولكني ظننت أنك أتيت بعض نسائك. قال: ان الله عزوجل ينزل ليلة النصف من شعبان إلى السماء الدنيا، فيغفر لأكثر من عدد شعر غنم كلب).أخرجه الترمذي في سننه۔ (3/116) وابن ماجۃ في سننه (1/444)

٢) عن معاذ بن جبل رضی اللہ عنه عن النبي صلی اللہ علیه وسلم أنه قال: "يطلع الله إلى خلقه ليلة النصف شعبان فيغفر لجميع خلقہ إلا مشرک أو مشاحن۔أخرجہ ابن حبّان فی صحیحہ(12/481)

٣) حدثنا حي بن عبدالله عن أبي عبدالرحمن الحبلي عن عبدالله بن عمرو مرفوعاً بلفظ : "يطلع الله عز وجل الى خلقه ليلۃ النصف من شعبان فيغفرلعباده الا لاثنين مشاحن وقاتل نفس۔أخرجہ احمد في المسند (6/197)

٤) من احدث فی امرنا ھذا مالیس منہ فھو رد‘‘ (مسلم ج ۲ ص ۷۷ ط قدیمی)
’’ومنھا وضع الحدود، والتزام الکیفیات والھیات المعینۃ، والتزام العبادات المعینۃ فی اوقات معینۃ لم یوجد کلھا ذلک العیین فی الشریعۃ‘‘ (الا عتصام، ابو اسحاق الشاطبی، الباب الاول فی تعریف البدع الخ: ۱/ ۳۹ ط دارالفکر)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
08 شعبان المعظم 1440

5 تبصرے: