پیر، 8 اپریل، 2019

ٹی وی وغیرہ پر کرکٹ میچ دیکھنا

سوال :

کیا ٹی وی، موبائل وغیرہ پر کرکٹ دیکھ سکتے ہیں؟
آج جسطرح سے IPL اور دیگر سیریز کو دیکھا جارہا ہے کوئی اسے گناہ سمجھ ہی نہیں رہا ہے۔ مفتی صاحب رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : حافظ عرفان، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اسلام اپنے ماننے والوں کو بامقصد زندگی گزارنے کی ہدایت دیتا ہے، ایسی بامقصد زندگی جس کی بنیاد ہر وقت اللہ کی رضا کی طلب اور چاہت ہو، آخرت کے بنانے کی فکر ہو اور لہوولعب اور فضول کاموں سے احتراز ہو، یہی زندگی ایمان والوں کی پہچان ہے، اور جس زندگی کی بنیاد لہوولعب پر مشتمل غفلت ولاپرواہی ہو وہ کفار و مشرکین کا شعار ہے۔

چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالٰی نے فلاح اور کامیابی پانے والے مؤمنین کی یہ صفت بیان کی ہے : وَالَّذِيْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ۔ کہ ایمان والوں کی صفت یہ ہے کہ وہ لغو یعنی فضول باتوں سے خواہ قولی ہوں یا (فعلی) اعراض کرتے اور دور رہتے ہیں۔ (سورۃ المومنون، آیت : 03)

لغو کے معنی فضول کلام یا بیکار کام جس میں کوئی دینی یا دنیاوی فائدہ نہ ہو، لہٰذا ہر ایسا کام یا ہر ایسی بات جس میں کوئی دینی یا دنیاوی نفع نہیں، اس سے اعراض کرنا چاہئے اور اس میں اپنا قیمتی وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کسی شخص کے بہترین مسلمان ہونے کا تقاضا ہے کہ وہ لغو باتوں کو چھوڑ دے۔ (١)

ٹی وی، موبائل وغیرہ میں کرکٹ میچ خواہ وہ آئی پی ایل ہو یا اور کوئی سیریز دیکھنے سے کون سا دینی فائدہ ہے؟ اس میں حیات مستعار کے قیمتی اوقات ضائع کرنے کے سوا اور کیا ہے؟ اس لئے قیمتی وقت کو اس بیکار اور لغو کام میں استعمال کرنے کی اجازت کس طرح ہوسکتی ہے؟ اس سے بالکل پرہیز کیا جائے، اور آج کل یہ کرکٹ وباء کی طرح ایک مرض بن گیا ہے، جس کی وجہ سے فرائض و واجبات بھی چھوڑ دیئے جاتے ہیں، نیز کرکٹ کے شائقین کی عموماً ایک پسندیدہ ٹیم ہوتی ہے، جس کی حمایت میں دیگر ٹیموں کے محبین سے بحث اور جھگڑا تک کرلیا جاتا ہے، بعض مرتبہ ہار جیت پر جوئے کھیلے جاتے ہیں، عورتیں اور نوجوان لڑکیاں بے شرمی اور بے ہودگی، بے پردگی کے ساتھ اسے دیکھنے کے لئے آتی ہیں جن کی باقاعدہ نمائش کی جاتی ہے۔ ان کے علاوہ بھی مزید اخلاقی خرابیاں ہیں، ایسی صورت میں اس کے ناجائز اور گناہ ہونے میں کیا شبہ ہوسکتا ہے؟ اگر بالفرض مذکورہ قباحتیں نہ بھی ہوں تب بھی ایسی چیزوں میں وقت کا ضیاع ہے جو شرعاً پسندیدہ نہیں ہے۔(٢)
حدیث شریف میں ہے کہ قیامت کے دن یہ بھی سوال ہوگا کہ تم نے اپنی عمر کہاں اور کن کاموں میں خرچ کی؟ بالخصوص جوانی کے زمانہ کے متعلق سوال ہوگا کہ اپنی جوانی کا زمانہ کہاں خرچ کیا؟ (٣) اگر ہم نے اپنا یہ قیمتی وقت گناہوں میں، یا ایسے لغو کاموں میں خرچ کیا ہوگا تو ہمارے پاس کیا جواب ہوگا؟ لہٰذا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ عمرِ مستعار کے قیمتی لمحات کو غنیمت سمجھے اور حسرت و افسوس کا موقع آنے سے پہلے پہلے آخرت کی تیاری کرلے۔

١) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ نَصْرٍ النَّيْسَابُورِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا : حَدَّثَنَا أَبُو مُسْهِرٍ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَمَاعَةَ ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ ، عَنْ قُرَّةَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لَا يَعْنِيهِ۔ (سنن الترمذی، رقم : ٢٣١٧)

٢) قال اللہ تعالیٰ : وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَشْتَرِیْ لَہْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ۔ (سورۃ لقمان، جزء آیت : ۶)

قال العلامۃ الآلوسي رحمہ اللّٰہ تعالیٰ : (لَہْوَ الْحَدِیْثِ) علی ما روي عن الحسن ’’کل ما شغلک عن عبادۃ اللّٰہ تعالیٰ وذکرہ من السمر والأضاحیک والخرافات والغناء ونحوہا … الخ۔ (روح المعاني : ۱۲؍۱۰۲)

٣) حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا حُصَيْنُ بْنُ نُمَيْرٍ أَبُو مِحْصَنٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ قَيْسٍ الرَّحَبِيُّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " لَا تَزُولُ قَدَمُ ابْنِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ عِنْدِ رَبِّهِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ خَمْسٍ : عَنْ عُمُرِهِ فِيمَ أَفْنَاهُ، وَعَنْ شَبَابِهِ فِيمَ أَبْلَاهُ، وَمَالِهِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ وَفِيمَ أَنْفَقَهُ، وَمَاذَا عَمِلَ فِيمَا عَلِمَ۔ (سنن الترمذی،  رقم : ٢٤١٦)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
03 شعبان المعظم 1440

1 تبصرہ: