جمعرات، 4 اپریل، 2019

شادی شدہ عورت کا غیر مرد سے تعلق رکھنا

*شادی شدہ عورت کا غیر مرد سے تعلق رکھنا*

سوال :

اگر شادی شدہ عورت شوہر کے رہتے ہوئے کسی دوسرے مرد سے اپنا رشتہ بنائے اس سے کچھ لے تو کیا حکم ہے؟
"رشتہ بنانے "سے زنا مراد نہیں ہے۔ بلکہ بے تکلفی سے بات چیت کرنا اور اس سے کوئی بھی چیز منگوانا یا وہ کوئی چیز لا کر دے تو بغیر چوں چرا کے لے لینا۔ جیسے وہی اس کا شوہر ہو۔
اس طرح کی عورت پر کیا حکم صادر ہوگا اور ملے ہوئے مال اشیاء کا عورت کا استعمال کرنا کیسا ہے؟
عورت کا اس طرح کی حرکت کرنے پر شوہر اس کے ساتھ کیا معاملہ کرے؟
(المستفتی : امروز، حیدرآباد)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بالغ مرد و عورت کا ایک دوسرے سے شرعی ضرورت کے بغیر بات چیت کرنا، ایک دوسرے کو دیکھنا اور ہنسی مذاق کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، شریعتِ مطہرہ نے اسے آنکھ، کان اور زبان کے زنا سے تعبیر کیا ہے۔

حدیث شریف میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ آنکھیں (زنا کرتی ہیں) کہ ان کا زنا نامحرم کو دیکھنا ہے، اور کان (زنا کرتے ہیں) کہ ان کا زنا نامحرم کی بات سننا ہے، اور زبان (زنا کرتی ہے) کہ اس کا زنا نامحرم کے ساتھ بولنا ہے، اور ہاتھ بھی (زنا کرتے ہیں) کہ ان کا زنا نامحرم کو چھونا ہے۔ (صحیح مسلم ۴/۳۳۶ کتاب القدر باب قدر علی ابن ادم حظہ‘ من الزنا وغیرہ)

اس عمل کی قباحت اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب مرد و عورت شادی شدہ ہوں، جس کا اندازہ اس حکمِ شرعی سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسلامی حکومت میں اگر غیرشادی شدہ لڑکی یا لڑکا زنا کرے تو اسے سو کوڑے سزا کے طور پر مارے جائیں گے، اور اگر شادی شدہ مرد و عورت یہ قبیح اور غلیظ عمل کریں تو انہیں سنگسار یعنی پتھر سے مار مار کر ہلاک کردیا جائے گا۔

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شادی شدہ  عورت کا غیرمحرم مرد سے تعلق رکھنا اور اس کے ساتھ بے تکلفی سے بات چیت کرنا اس سے کسی چیز کا مطالبہ کرنا اور اس کا ہدیہ قبول کرنا سب باتیں ناجائز اور حرام ہیں، اور ان چیزوں کا استعمال بھی اس کے لیے جائز نہیں ہے، ان سب کا واپس کردینا ضروری ہے، یہ عورت اپنے اس قبیح افعال کی وجہ سے گناہِ کبیرہ کی مرتکب ہوئی ہے، اس لئے اس پر لازم ہے کہ سچے اورخالص دل سے توبہ کرکے اپنی اس حرکت پر نادم ہو، اگر وہ سچے دل سے توبہ استغفار کرلیتی ہے تو امید ہے کہ اس کا گناہ معاف ہوجائے گا، اور شوہر کو اس پر اطمینان ہوجائے کہ آئندہ ان گناہوں سے دور رہے گی، تو وہ اسے اپنے نکاح میں رکھنا چاہتا ہوتو رکھ سکتا ہے، شرعاً کوئی ممانعت نہیں ہے۔

البتہ اگر وہ اپنے قبیح افعال سے باز نہ آئے اور اس کے ساتھ رہنے میں شوہر شرعی حدود پر قائم نہ رہ سکتا ہوتو پاکی کی حالت میں اسے ایک طلاق دے کر اپنے نکاح سے خارج کرسکتا ہے، اس صورت میں شوہر شرعاً  گناہ گار نہیں ہوگا۔

قال اللہ تعالٰی : قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰی اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَحْمَةِ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا اِنَّہُ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ (سورہٴ زمر، آیت : ۵۳)

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ۔ رواہ ابن ماجہ والبیہقی في شعب الإیمان

ولا یجب علی الزوج تطلیق الفاجرۃ و لاعلیہا تسریح الفاجر، إلا إذا خافا أن لا یقیما حدود اللہ فلا بأس أن یتفرقا۔ ( البحر الرائق : ۳/۱۸۸)

فالأحسن : أن یطلق الرجل امرأتہ تطلیقۃ واحدۃ في طہر لم یجامعہا فیہ، ویترکہا حتی تنقضي عدتہا۔ (ہدایۃ، کتاب الطلاق، باب طلاق السنۃ، ۲/۳۵۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
28 رجب المرجب 1440

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں