پیر، 15 اپریل، 2019

بسی والوں کا اپنے کھاتے داروں کو سال کے اخیر میں تحفہ دینا

سوال :

مفتی صاحب مالیگاؤں شہر میں بہت ساری جگہوں پر ہفتے واری ڈائری بھری جاتی ہے سال بھر رقم استعمال کی جاتی ہے  اور شب برأت پر پوری رقم واپس کردی جاتی ہے، جہاں میں ڈائری بھرتا ہوں وہاں رقم کی مقدار کے حساب سے انعام دیا جاتا ہے۔ تو کیا یہ انعام لینا جائز ہے؟
(المستفتی : حافظ شہباز، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورت مسئولہ میں بسی کے منتظمین سے مذکورہ تحفہ لینا قرض دے کر اس سے فائدہ اٹھانے کے مترادف ہے، لہٰذا اس کا لینا شرعاً جائز نہ ہوگا۔ تفصیل اس اجمال کی ذیل میں ملاحظہ فرمائیں :

حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص کسی کو قرض دے اور پھر قرض لینے والا اس قرض دینے والے کے پاس کوئی تحفہ بھیجے یا سواری کے لئے کوئی جانور دے تو وہ قرض دینے والا نہ اس جانور پر سوار ہو اور نہ اس کا تحفہ قبول کرے ہاں اگر قرض دینے والے اور قرض لینے والے دونوں کے درمیان پہلے سے تحفہ یا سواری کے جانور کا لینا دینا جاری ہو تو پھر اس کو قبول کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ (١)

ایک دوسری جگہ حضرت انس رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ رسول کریم نے فرمایا جو شخص کسی کو قرض دے تو وہ اپنے قرضدار سے بطور تحفہ بھی کوئی چیز قبول نہ کرے۔ (٢)

بخاری شریف کی روایت میں ہے حضرت ابوبردہ بن ابی موسی تابعی کہتے ہیں کہ جب میں مدینہ میں آیا اور حضرت عبداللہ بن سلام صحابی سے ملا تو انہوں نے فرمایا کہ تم ایک ایسی سر زمین پر ہو جہاں سود کا بہت رواج ہے لہذا اگر کسی پر تمہارا حق ہو یعنی کوئی تمہارا قرضدار ہو اور وہ تمہیں بھوسے کا ایک گھڑا یا جو کی ایک گٹھڑی یا گھاس کا ایک گٹھا بھی تحفہ کے طور پر دے تو تم اسے قبول نہ کرنا کیونکہ وہ سود کا حکم رکھتا ہے۔ (٣)

ذکر کردہ احادیث سے معلوم ہوا کہ قرض خواہ کو اپنے قرض دار سے تحفہ وہدیہ کے طور پر کوئی بھی چیز قبول نہ کرنا چاہیے، اور اس ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اس صورت میں سود کا اشتباہ ہوسکتا ہے کیونکہ قرض خواہ کو قرض کے ذریعہ جو بھی منفعت حاصل ہوتی ہے وہ سود کے حکم میں ہے، ہاں اگر قرض کے لین دین سے پہلے ہی سے دونوں کے تعلقات کی نوعیت یہ ہو کہ ان کا آپس میں تحفہ تحائف لینے دینے کے رسوم جاری ہوں تو پھر اس صورت میں قرض لینے کے بعد بھی قرض دار کوئی چیز قرض خواہ کے پاس بھیجے تو قرض خواہ اسے قبول کر سکتا ہے کیونکہ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں قرضدار اگر کوئی چیز بطور تحفہ وہدیہ قرض خواہ کو دے گا تو اس کا وہ دینا قرض کے دباؤ کی وجہ سے نہیں ہوگا بلکہ اپنے سابقہ تعلقات اور پہلے سے جاری رسوم کی بنیاد پر ہوگا۔

اگر قرض خواہ اپنے قرض دار سے کوئی نفع حاصل کرے تو دیکھا جائے گا کہ وہ نفع موعود ومشروط ہے یا نہیں، اگر نفع کی شرط لگائی گئی ہو یا اس کا وعدہ کیا گیا ہوگا تو اس صورت میں اس کی حرمت میں کوئی شبہ نہیں یعنی وہ نفع سود کے حکم میں ہوگا۔

صورتِ مسئولہ میں چونکہ یہ پہلے سے متعین ہے کہ بسی کے منتظمین سال کے اخیر میں اپنے کھاتے داروں کو کچھ نہ کچھ تحفہ دیں گے، لہٰذا یہ مشروط و موعود ہدیہ اور تحفہ میں شمار ہوکر سود کہلائے گا، جس کا لینا دینا دونوں جائز نہیں ہے۔

١) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِي عُتْبَةُ بْنُ حُمَيْدٍ الضَّبِّيُّ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ الْهُنَائِيِّ، قَالَ : سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ : الرَّجُلُ مِنَّا يُقْرِضُ أَخَاهُ الْمَالَ فَيُهْدِي لَهُ ؟ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِذَا أَقْرَضَ أَحَدُكُمْ قَرْضًا فَأَهْدَى لَهُ، أَوْ حَمَلَهُ عَلَى الدَّابَّةِ، فَلَا يَرْكَبْهَا، وَلَا يَقْبَلْهُ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ جَرَى بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ قَبْلَ ذَلِكَ ۔ (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 2432)

٢) عن انس عن النبیﷺ قال اذا اقرض الرجل الرجل فلا یأخذ ہدیۃ رواہ البخاری فی تاریخہ ہکذا فی المنتقی۔ (مشکوٰۃ المصابیح ۲۴۶ باب الربوا ، کتاب البیوع)

٣) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ فَلَقِيتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَلَامٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ : أَلَا تَجِيءُ فَأُطْعِمَكَ سَوِيقًا، وَتَمْرًا، وَتَدْخُلَ فِي بَيْتٍ. ثُمَّ قَالَ : إِنَّكَ بِأَرْضٍ الرِّبَا بِهَا فَاشٍ ؛ إِذَا كَانَ لَكَ عَلَى رَجُلٍ حَقٌّ فَأَهْدَى إِلَيْكَ حِمْلَ تِبْنٍ، أَوْ حِمْلَ شَعِيرٍ، أَوْ حِمْلَ قَتٍّ فَلَا تَأْخُذْهُ فَإِنَّهُ رِبًا۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر 3814)

المعروف کالمشروط۔ (الأشباہ والنظائر ۱؍۱۵۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمدعامرعثمانی ملی
09 شعبان المعظم 1440

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں