منگل، 2 اپریل، 2019

نابالغ کی اذان و اقامت کا حکم

*نابالغ کی اذان و اقامت کا حکم*

سوال :

محترم جناب مفتی صاحب!
نابالغ بچے کی اذان و اقامت کا کیا حکم ہے؟ رہنمائی فرمائیں ۔
(المستفتی : افضال احمد ملی، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اذان و اقامت کے کلمات کی ادائیگی کیلئے ضروری ہے کہ کوئی ایسا عاقل اور معتبر آدمی کہے جس پر لوگ بھروسہ کرتے ہوں تاکہ اذان کا مقصد "اعلام"صحیح طور پر حاصل ہوسکے۔

لہٰذا اتنا کم عمر بچہ جس میں ابھی شعور پیدا نہ ہوا ہو اور وہ اذان و اقامت کا مقصد بھی نہ سمجھتا ہو، اگر اذان و اقامت کہہ دے تو اس کا اعادہ ضروری ہے۔ البتہ جو لڑکے ابھی نابالغ ہیں، لیکن باشعور اور سمجھ دار ہیں، اور اذان کے کلمات صحیح طور سے ادا کرلیتے ہیں، ان کی اذان بلا کراہت درست ہے، تاہم بہتر یہی ہے کہ بالغ شخص اذان و اقامت کہے۔

ینبغی ان یکون المؤذن رجلاعاقلاصالحا تقیاعالمابالسنۃ کذا فی النھایۃ ۔(الفتاوی الھندیہ : ۵۳/۱)

وذکر فی البدائع ایضاً أن اذان الصبی الذی لایعقل لایجزی ویعاد، لان مایصدر لاعن عقل لایعتد بہ کصوت الطیور۔(شامی : ۳۹۴/۱)

اذان الصبی العاقل صحیح من غیر کراہۃ فی ظاہر الروایۃ ولکن اذان البالغ افضل واذان الصبی الذی لا یعقل لا یجوز ویعاد وکذا المجنون ہکذا فی النہایۃ۔ (الفتاویٰ الہندیہ : ۵۴/١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
26 رجب المرجب 1440

2 تبصرے: