بدھ، 24 اپریل، 2019

مغرب کی باجماعت نماز میں بہ نیتِ نفل شریک ہونا

*مغرب کی باجماعت نماز میں بہ نیتِ نفل شریک ہونا*

سوال :

حضرت مفتی صاحب!
مغرب کی تین رکعت فرض پڑھانے والے امام کے پیچھےنفل کی نیت کرکے اقتداء کرنا کیسا ہے؟
حوالہ بھی مطلوب ہے، جزاک اللہ خیرا
(المستفتی : اسعد احسنی، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر کوئی شخص ظہر اور عشاء میں جماعت سے پہلے فرض ادا کرلے یا کسی مسجد میں جلد نماز ادا کرنے کے بعد دوسری مسجد میں پہنچے تو وہ اس جماعت میں بہ نیت نفل شریک ہوسکتا ہے، لیکن فجر، عصر اور مغرب میں ایسا نہ کرے، فجر اور عصر میں تو اس لئے کہ ان کے بعد نفل نماز  مکروہ ہے۔ اور مغرب میں اس لئے کہ مغرب کی تین رکعت ہیں اگر یہ شریک ہوگا تو امام کے ساتھ سلام پھیرنے کی صورت میں تین رکعت نفل ہونا لازم آئے گا جو کہ مشروع نہیں، اور امام کے بعد ایک رکعت اور پڑھنے کی صورت میں امام کی مخالفت لازم آئے گی، لہٰذا صورت مسئولہ میں مغرب کی نماز باجماعت میں نفل کی نیت سے شریک ہونا درست نہیں۔

عن عطاء بن یزید اللیثي أنہ سمع أبا سعید الخدري رضي اللہ عنہ یقول: قال رسول الله صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا صلاۃ بعد صلاۃ العصر حتی تغرب الشمس ولا صلاۃ بعد صلاۃ الفجر حتی تطلع الشمس۔ (صحیح البخاري ۱؍۸۲، رقم: ۵۸۶)

وان قید الثالثۃ بسجدۃ لایقطع بل یتم صلاۃ لااستحکامہا بوجود الاکثر ویقتدی متنفلا ان کان فی الظہر او العشاء (الی قولہ) ان النہی عن النفل بعد الصبح والعصر وعدم شرعیۃ التنفل بالوتر ومخالفۃ الامام اللازم احدہما فی المغرب عارض اطلاقہ وموردہ فبقی فی الظہر والعشاء سالما عن المعارض فیعمل بہ (الفتاویٰ الہندیۃ : ۱/۱۱۹)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
18 شعبان المعظم 1440

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں